کیا اس ملک میں ایک ہی ارشد ندیم ہے؟

اس وقت ہمارا سارا ملک خوشی سے جھوم رہا ہے۔ ہم اپنے تمام مسائل، مصیبتوں، مشکلات اور تلخیوں کو پس پشت ڈال کر اولمپکس کے اکلوتے گولڈ میڈل کی خوشی میں نہال ہیں۔ کیوں نہ ہوں اولمپکس کی 128 سالہ تاریخ میں اور پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں یہ پہلا پرسنل گولڈ میڈل ہے جو کسی پاکستانی ایتھلیٹ نے جیتا ہے۔

اس سے پہلے پاکستان اپنے قومی کھیل ہاکی میں تین بار گولڈ میڈل اور ایک بار کانسی کا تمغہ جیت سکا ہے جبکہ دوسرے بہت سارے ممالک جن کی آبادی پاکستان کے دسویں حصے سے بھی کم ہے، ہر بار اولمپکس میں درجنوں میڈل حاصل کر لیتے ہیں۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تعداد سے زیادہ معیار کی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر ہم ایک یا دو بچے پیدا کر کے ان کی بہتر تربیت اور صحت پر توجہ دیں تو وہ ان دس بچوں سے بہتر ہیں جو کسمپرسی میں پلتے ہیں. دو دن پہلے میں نے آزاد کشمیر کے شہر کوٹلی کی نکیال روڈ کے ایک موڑ پر ایک بل بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا کہ "آبادی اور گاڑی کی رفتار کم رکھیں"۔ اس کے پاس سے ہم چار بار گزرے اور میں نے اپنی بیگم کو ہر بار اس بورڈ کی طرف متوجہ کیا۔ آخری بار وہ کہنے لگی کہ یہاں آبادی تو کم نظر آ رہی ہے، پھر گاڑی کی رفتار کو کم کرنے کا کیوں لکھا ہے؟ ایم بی اے بیگم یہ نہ سمجھ سکی کہ نیچے منجانب بہبود آبادی لکھا ہوا ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ آگے آبادی ہے، اس لیے گاڑی کی رفتار کم کرنا ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ جس طرح گاڑی کو حد رفتار سے تیز چلانا خطرناک ہے، اسی طرح آبادی بڑھانے کی رفتار بھی بہت ہی خطرناک ہے۔

اولمپکس گیمز جنہیں ماڈرن اولمپکس کہا جاتا ہے پہلی بار 1896 میں یونان کے شہر ایتھنز میں منعقد ہوئے تھے۔ ویسے اولمپکس جسے اولمپیا کے نام سے جانا جاتا ہے تین ہزار سال پہلے یونان ہی میں شروع ہوئے تھے۔ بہرحال ہم جدید اولمپکس کی بات کرتے ہیں۔ اولمپکس میں دنیا کی بیشتر کھیلوں کو شامل کیا جاتا ہے اور ہر بار ان کھیلوں میں کئی نئی کھیلوں کا اضافہ بھی ہوتا ہے۔ جس کھیل جیولین تھرو میں پاکستان کے ستارے ارشد ندیم نے سونے کا تمغہ حاصل کیا ہے، یہ ایک ڈنڈے کے آگے لوہے کی برچھی لگی ہوتی ہے جو نیزے کی صورت دکھائی دیتا ہے۔ جسے کھلاڑی آگے کو دوڑ کر پھینکتا ہے۔ جو سب سے آگے پھینکے گا وہ جیتے گا۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اور تھرو بھی ہے جسے ہم گولہ پھینکنا کہتے تھے۔ یہ ایک لوہے کی زنجیر کے ساتھ باندھا لوہے کا گیند نما گولہ ہوتا ہے جسے گما گما کر پھینکا جاتا ہے۔ اسی طرح کشتی رانی، کبڈی، فٹبال، ہاکی دوڑیں، رسہ کچھائی اور دوسری بہت ساری اولمپکس شامل کھیلیں ہیں جو ہمارے تعلیمی اداروں میں ہر سال منعقد ہوتی تھیں۔ جن میں بہت باصلاحیت کھلاڑی بھی سامنے آتے تھے مگر تعلیم سے فارغ ہو کر انہیں شادی اور روزگار کا غم لے ڈوبتا تھا۔ آج کے بچوں کو اس کا سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہوگا کہ تمام تعلیمی اداروں میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کھیلیں بھی لازمی ہوتی تھیں۔ ہر ہائی اسکول میں ایک پی ٹی آئی استاد ہوتے تھے جبکہ کالجز میں ڈی پی صاحبان ہوتے تھے۔ جو اب بھی سرکاری کالجز میں ہیں لیکن جب سے سرکار نے تعلیم اور صحت کو ٹھیکداروں کے حوالے کیا تو پھر ساری دوڑ کتابیں بڑھانے اور رٹے لگانے پر لگ گئی اور دس دس مرلے میں نجی تعلیمی ادارے قائم ہو گئے۔

تعلیمی اداروں کے اندر کھیلوں کے لیے جگہ ہی نہیں ہے۔ حکومت نے بھی کھیلوں کو شاید بچوں کا کھیل سمجھ کر نظر انداز کر رکھا ہے۔ پاکستان میں کھیلوں کے لیے جتنا بجٹ پچیس کروڑ کی آبادی کے لیے رکھا جاتا ہے، کئی ترقی یافتہ ممالک میں اتنی رقم ایک ضلع کی کھیلوں پر خرچ کی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے حکومتی نمائندے، سیاسی جماعتوں کی قیادت، صحافی برادری اور عام لوگ کھیلوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کھیلوں کو جتنا فروغ دیا جائے گا اسی تناسب سے لوگوں کی صحت اچھی ہوگی اور ایک صحت مند فرد بیمار فرد سے ریاست کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ کھیلیں صحت مند معاشرہ بناتی ہیں اور صحت مند معاشروں کے لوگ ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں۔

اس وقت ہم جس ارشد ندیم کے دیوانے ہوئے پھرتے ہیں اور اس پر انعامات کی بارش کر رہے ہیں اس طرح کے سینکڑوں ارشد ندیم ہوں گے جن کی کسی نے راہنمائی کی نہ وسائل مہیا کیے۔ ارشد بھی ذاتی کوشش اور محنت سے اس مقام تک پہنچا ہے لیکن ہر بچہ یا نوجوان ذاتی حیثیت میں یہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام تعلیمی اداروں بشمول مذہبی مدرسوں میں بچوں کے لیے کھیلوں کا اہتمام کیا جائے اور جانچا جائے کہ کون سا طالب علم کس کھیل میں صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت جتنے انعامات ارشد ندیم کو دیے جا رہے ہیں اتنی رقم اگر ہر ضلع میں لگائی جائے تو اگلے اولمپکس میں ہم کئی تمغے حاصل کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ کام صرف حکومت کے کرنے کا نہیں ہے بلکہ مخیر حضرات کو بھی اس شعبے میں تعاون کرنا چاہیے۔ نجی کاروباری اداروں کو بھی کھیلوں کے اہتمام کے لیے کچھ رقم صرف کرنی چاہیے، پہلے پاکستان کے اداروں کے اندر کئی کھیلوں کا انعقاد ہوتا تھا پاکستان ائیر لائن، ریلوے، پاک فوج، پولیس اور واپڈا جیسے اداروں نے مختلف کھیلوں میں بیسیوں نامور کھلاڑی پیدا کیے ہیں لیکن اب نہ ادارے اس طرف توجہ دے رہے ہیں نہ علاقائی سطح پر کوئی کوشش دکھائی دیتی ہے۔

کہتے ہیں کہ جس ملک میں کھیلوں کے میدان آباد ہوتے ہیں اس ملک کے ہسپتال ویران ہو جاتے ہیں۔ ہماری آبادی کا لگ بھگ 40 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن انہیں جب معیاری اور تعمیری سرگرمیوں سے دور رکھا جاتا ہے تو پھر وہ غیر اخلاقی، غیر قانونی اور بری سرگرمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ارشد ندیم  نے پاکستان کا جھنڈا اونچا کیا ہے تو پھر ہمیں کئی ارشد ندیموں کی تلاش کرنی چاہیے اس کام کے لیے قومی لاٹری کا آغاز بھی کیا جا سکتا ہے۔

loading...