مخصوص نشستوں کے فیصلے پر الیکشن کمیشن فوری عملدرآمد کرے: سپریم کورٹ

  • ہفتہ 14 / ستمبر / 2024

مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے اکثریتی بینچ نے وضاحتی حکم میں کہا ہے کہ فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں۔ الیکشن کمیشن فیصلے پر فوری عملدرآمد کرے۔

مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی وضاحتی درخواست پر سپریم کورٹ نے تحریری آرڈر جاری کیا ہے۔ کیس میں اکثریتی 8 ججز کے بینچ کا فیصلہ 4 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 41 ارکان سے متعلق وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش اور تاخیری حربہ ہے۔ الیکشن کمیشن کی وضاحتی درخواست عدالتی فیصلے پر عمل در آمد کے راستہ میں رکاوٹ ہے اور اس کی وضاحت کی درخواست درست نہیں۔

حکم میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا۔ الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن ہے کہ تحریک انصاف رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔ اقلیتی ججز  نے بھی تحریک انصاف کی قانونی پوزیشن کو تسلیم کیا۔ الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا، فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں۔ سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ واضح ہے اور اس کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر فوری عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل میں تاخیر کے نتائج ہو سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن درخواست ہے سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر فوری عملدرآمد کی ہدایت کر دی۔

عدالت عظمیٰ کے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اکثریتی بینچ کے فیصلے میں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ 12 جولائی کو اپنے شارٹ آرڈر میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی فل بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کی مخالفت کی تھی۔

loading...