بے فیض ترامیم
- تحریر امر جلیل
- منگل 15 / اکتوبر / 2024
انیس سو سینتالیس سے آج تک پاکستان اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایسی بیہودہ بات کہنے کی میں جسارت بھی نہیں کر سکتا۔ ایسی بات کہنے کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے اور پھر آپ پراسرار طور پر غائب ہو جاتے ہو۔
کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ آپ کہاں اور کیسے غائب ہو جاتے ہو۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کو جن غائب کر دیتے ہیں۔ ایک شخص کا پچیس چھبیس برس کا نوجوان بیٹا پراسرار طور پر غائب ہو گیا۔ اس شخص کو یقین تھا کہ اس کے بیٹے کو جن اٹھا کر لے گئے ہیں۔ میں آپ کو پچاس برس پرانا قصہ سنا رہا ہوں۔ عدالتوں سے مایوس ہونے کے بعد وہ شخص آج تک جن، بھوتوں اور راکھشسوں سے اپنے بیٹے کو چھڑانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اس کا نوجوان بیٹا بذات خود بھی سینئر سٹیزن ہو چکا ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرا ہم عمر اور ہم عصر دوست خود بھی نہیں جانتا کہ اس کا نوجوان بیٹا اس دلفریب دنیا میں موجود ہے یا کہ ان دیکھی زیادہ دلفریب دنیا کی طرف کوچ کر گیا ہے۔
مگر یقین میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ آپ ننگے پاؤں دہکتے ہوئے انگاروں پر چل سکتے ہیں۔ میں بہت بڑے کنبے والا آدمی ہوں۔ یہ درست ہے کہ میں نے ملک کی اقتصادی صورتحال میں رتی برابر اضافہ نہیں کیا ہے۔ مگر اپنے تڑ پوتوں اور پڑ پوتوں سے لیکر بیٹے بیٹیوں کے لائو لشکر کیساتھ ملک کی آبادی میں خوب اضافہ کیا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ انیس سو سینتالیس سے لے کر آج تک لوگ کھڑے کھڑے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے غائب ہو جاتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے منہ سے ایسی نازیبا بات نکلے جسکی پاداش میں جن، بھوت اور راکھشس میرے بچوں کو اٹھا کر لیجائیں اور انکو غائب کر دیں جن بھوت آسانی سے کسی کو چھوڑتے نہیں۔ اور اگر چھوڑتے ہیں تو ان کا حلیہ بگاڑ کر چھوڑتے ہیں۔ ان کی آنکھیں تو ہوتی ہیں مگر وہ دیکھ نہیں سکتے۔ ان کی ناک بھی سلامت ہوتی ہے، مگر وہ سونگھ نہیں سکتے۔ ان کے منہ میں زبان بھی ہوتی ہے، مگر وہ بول نہیں سکتے۔ ان کے سر میں بھیجا تو ہوتا ہے، مگر وہ سوچ نہیں سکتے۔
وہ سب کچھ بھول چکے ہوتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے روح فرسا عقوبتوں سے گزریں۔ جہاں تک میرا اپنا سوال ہے، عرض کر دوں کہ زندگی میں ایک مرتبہ گم ہو جانے کے بعد آپ دوبارہ گم نہیں ہو سکتے۔ بہت پہلے میں زندگی میں غائب ہو چکا ہوں۔ کوئی مجھے تلاش نہیں کر سکتا ۔ میں قصے کہانیاں وہاں سے لکھتا ہوں جہاں میں گم گشتہ زندگی بسر کر رہا ہوں۔ کچھ محرموں اور کچھ نامحرموں کو یقین ہے کہ میں مر چکا ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ اس بارے میں مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ مجھے صرف ایک شعر کی سطر لکھنے کی اجازت دیجیے۔
’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘
ملک کو نازک ترین دور سے نکالنے کیلئے موجودہ حکومت آئین میں ردو بدل کی بھر پور تیاریاں کر رہی ہے۔ میرا سیاست سے کبھی بلا واسطہ یا کبھی بالواسطہ پالا نہیں پڑا ہے۔ بریانی کی ایک پلیٹ کھا کر میں سردار سائیں کو ووٹ دیتا ہوں۔ میرے ووٹ کو اور میرے جیسے اللہ لوکوں کو سیاستدان قیمتی ووٹ کہتے ہیں۔ میرے ووٹ کی قیمت بریانی کی ایک پلیٹ کے برابر ہے۔ اس کو آپ سیاست سے میرا اقتصادی اور معاشی تعلق کہہ سکتے ہیں۔ اس کو آپ سیاست سے میرا سیاسی تعلق نہیں کہہ سکتے۔ اس نابکار تعلق کو پیٹ پوجا کہہ سکتے ہیں۔ اتفاق کی بات ہےکہ ہم کنگلوں کی معاشی پارٹی کا نام ہے۔ پیٹ پوجا پارٹی۔ انگریزی میں مخفف ہے PPP ہماری پارٹی کی اکثریت پاکستان کی اکثریت کے برابر ہے۔ ہماری پارٹی میں بڑا بول بولنے والوں نے آئین میں ترمیموں کی حمایت کی ہے اور عالیشان تجاویز دی ہیں اور حکومت وقت سے استدعا کی ہے کہ ان ترامیم کو جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جائے۔
روز اول سے جمہوریت ریڑھ کی ہڈی کیلئے ترستی رہی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے بغیر پاکستان میں جمہوریت کبڑی جمہوریت کی علامت بن چکی ہے۔ اس لئے پاکستانی جمہوریت کو مثالی جمہوریت بنانے کیلئے PPP کی تجاویز کو اولیت دی جائے۔ آپ بھی ان تجاویز کو پڑھ لیجیے۔ ترمیمی تجاویز پڑھنے کے بعد آپ اگر کبڑی جمہوریت کو سیدھا، کھرا اور کھڑا دیکھنے کیلئے اپنی طرف سے نایاب تجاویز دینا چاہیں، دلجمعی سے دے سکتے ہیں:
ایک ۔ ریٹاٹرمنٹ ایج: ایک انجینئر، ایک ڈاکٹر ، ایک سرجن، ایک سائنس دان کو آپ ساٹھ برس کی عمر میں ریٹائرڈ کر دیتے ہیں، جبکہ وہ تب تک معیار کی اعلیٰ سطح تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ اگر ایک ایم این اے ، ایم پی اے یا سینیٹر کیلئے آپ نے ریٹائرمنٹ کی عمر کا تعین نہیں کیا ہے وہ ملک چلانے کیلئے قوانین بناتے ہیں۔ ستر، اسی، نوے برس کی عمر تک اسمبلیوں میں اونگھتے رہتے ہیں۔ اسمبلیوںمیں سو جاتے ہیں۔ پی پی پی کی تجویز ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے ممبران کی ریٹاٹرمنٹ عمر کا تعین ہونا چاہئے۔ انہیں بھی سرکاری ملازمین کی طرح ریٹائرکرنا چاہئے۔ اونگھتے ہوئے اور جمائیاں لیتے ہوئے قانون ساز اسمبلی کے ممبران ملک چلانے کیلئے اونگھتا ہوا اور جمائیاں لیتا ہوا قانون بنا سکتے ہیں۔
دوئم۔ تعلیمی لیاقت : دفتروں میں کلرک اور آفس اسسٹنٹ کیا کام کرتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں۔ وہ ملک چلانے کیلئے قوانین نہیں بناتے مگر ملازمت کیلئے انکا گریجویٹ ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پارٹی کی تجویز ہے کہ قانون ساز اسمبلیوں کا ممبر بننے کیلئے ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر کیلئے تعلیمی لیاقت ماسٹر سے کم نہیں ہونی چاہئے۔ کھیل ختم، پیسہ ہضم، بہت سی آئینی ترامیم اور تجاویز رہ گئی ہیں۔ اگلے کسی قصے میں انکا جائزہ لیںگے۔ فی الحال ان دو ترامیم کے بارے میں سوچئے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)