سچ بمقابلہ فیک نیوز۔ مسئلے کا حل کیا ہے؟
- تحریر نسیم شاہد
- اتوار 20 / اکتوبر / 2024
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں سچ الجھ گیا ہے۔ ایسے بیسیوں مواقع پہلے بھی وطن عزیز میں آ چکے ہیں جب سچ ایسے غائب ہو جاتا ہے۔ جیسے بھوسے میں سوئی اور پھر اس کی تلاش ممکن نہیں رہتی۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے اگر ہمارے ملک میں سچ چھپائے نہ جاتے ،سامنے آتے رہتے تو ہم کئی بحرانوں سے بچ سکتے تھے۔ سچ کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ کڑوا ضرور ہوتا ہے البتہ کڑوی دوائی کی طرح اثر کرتا اور اس کے بعدا فاقہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے ایک سچ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، اس کے باوجود وہ چھپتا نہیں اور لوگوں کے ذہنوں میں سوال بن کر کھٹکتا رہتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ تکنیک صرف ہمارے ملک میں استعمال کی جاتی ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے، سچ کو مصلحتاً چھپا دیتے ہیں اور پھر تیس چالیس سال بعد سامنے لاتے ہیں۔ چند سال پہلے جب وکی لیکس سامنے آئی تو ایسے ایسے سچ سامنے آئے جنہوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن چونکہ وقت گزر چکا تھا اس لئے ان کے سامنے آنے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ آج کل تو معاملہ کچھ زیادہ ہی مشکل اور گمبھیر ہو چکا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب یہ سوشل میڈیا کا جنگل آباد نہیں ہوا تھا، سچ کو سامنے لانے کے میڈیائی ذرائع ہوتے تھے۔ ان کے اپنے معیار اور کھٹالی ہوتی تھی، جس سے گزار کر کوئی بات سامنے لائی جاتی تھی۔ سچ یا تو پوری طرح دب جاتا تھا یا پھر پوری طرح سامنے آ جاتا تھا مگر اس دورِ پر فتنی میں کہ جب ہر شخص کے ہاتھ میں کیمرا اور سکرین ہے، کچھ بھی اپ لوڈ کیا جا سکتا ہے اور پھر دیکھنے والے طوفان برپا کر سکتے ہیں۔ آج کل فیک نیوز کی اصطلاح عام ہے۔بڑی آسانی سے اس فیک نیوز کو بنایا اور مشتہر کیا جا سکتا ہے۔ لاہور میں ایک طالبہ سے زیادتی کا مبینہ واقعہ کس تیزی سے در و دیوار ہلا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود ایسا مستند اور حتمی سچ پھر بھی سامنے نہیں آ سکا جو سب کو قابلِ قبول ہو۔ اب اس سچ کی تلاش کے لئے لاہور ہائیکورٹ بھی متحرک ہے، جے ائی ٹی بھی بن چکی ہے۔ ایف آئی اے بھی سرگرم ہے تاہم روایات کے مطابق لائق یقین یہی ہے، وقت کی گرد میں یہ سب کچھ بھی دب جائے گا ۔اور ہم سب پھر کسی نئے واقعہ کے انتظار میں بیٹھ جائیں گے جو زمین پر بے شک وقوع پذیر نہ ہو مگر ہمارے ہاتھ میں آنے والے اناڑی کے اُسترے کی زد میں آکر ضرور معاشرے کو زخمی کر جائے گا۔
مجھے اپنے دورِ طالب علمی کے ایسے کئی واقعات یاد ہیں جو جھوٹ کی بنیاد پر گھڑے گئے اور انہیں سیاسی جماعتوں یا اس زمانے کے پریشر گروپوں کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔تاہم اس زمانے میں چونکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نہیں ہوتا تھا اس لئے کچھ دیر بعد حالات نارمل ہو جاتے تھے۔1976کی بات ہے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ میں سیکنڈ ایئر کے طالب علم کی حیثیت سے بہت کچھ دیکھا۔ ایک دن شور مچ گیا کہ سول لائنز کالج میں ایک طالب علم کو پولیس نے تشدد کرکے مار دیا ہے۔ سول لائنز کالج اور بوسن روڈکا فاصلہ تقریباً چار پانچ کلومیٹر ہے۔ یہ خبر گورنمنٹ کالج بوسن روڈ پہنچی تو بائیکاٹ بائیکاٹ کے نعرے سنائی دیئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا۔ ہم سب طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور بوسن روڈ سے ہوئے گلگشت پہنچے۔ وہاں سے کچہری کی طرف روانہ ہوئے، اتنے میں پولیس آ گئی۔ اس نے ہمیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اس پر اشتعال پھیل گیا۔
مجھے یاد ہے اس وقت کے ایک ایس پی طالب علم لیڈروں کے پاس آئے اور انہوں نے احتجاج کی وجہ پوچھی۔ جب انہیں بتایا گیا سول لائنز کالج کے ایک طالب علم کو پولیس نے تشد دکرکے مار دیا ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ انہوں نے کہا ایسا تو کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ سول لائنز کالج میں کلاسیں جاری ہیں اور وہاں لااینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ نہیں، لیکن طلبہ نہ مانے اور بضدرہے کہ وہ جلوس لے کر سول لائنز کالج جائیں گے۔ معاملہ جب بڑھا تو جلوس میں موجود کئی طلبہ نے نعرے بازی اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ جس پر پولیس حرکت میں آئی اور لاٹھی چارج کیا۔ یوں کشیدگی پھیل گئی۔ پولیس کی مزید نفری منگوائی گئی اور آنسو گیس کا استعمال بھی کرنا پڑا۔ اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کوئی ذہین شخص تھے۔انہوں نے پولیس کو موقع سے ہٹا لیا اور باقاعد ہ لاؤڈ سپیکر پر اعلان کرایا۔ طلبہ کو سول لائنز جانے کی اجازت ہے۔انہیں راستے میں کوئی نہیں روکے گا۔
طلبہ دوبارہ اکٹھے ہوئے اور پیر خورشید کالونی کے راستے کچہری کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں سبھی کو کھٹکا تھا پولیس کسی بھی وقت دھاوا بول سکتی ہے کیونکہ کچہری کے ساتھ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر بھی موجود تھے۔ تاہم ایسا کچھ نہ ہوا، جب ہم سب ایک جلوس کی صورت میں گورنمنٹ کالج سول لائنز پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں گیٹ پر پرنسپل، پروفیسر صاحبان اور طالب علم ہمارے استقبال کے لئے موجود ہیں۔ کالج یونین کے عہدیداروں نے بتایا یہاں تو ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔کالج میں تو پرامن کلاسز جاری ہیں۔ یہ سن کر ہمارے ساتھ آنے والے سٹوڈنٹس اور لیڈرز بہت حیران اور شرمندہ ہوئے۔ اس موقع پر پھر ڈپٹی کمشنر سامنے آئے اور انہوں نے میگافون پر خطاب کرتے ہوئے کہا، آج آپ کے لئے ایک بہت بڑا سبق سیکھنے کا دن ہے۔ سنی سنائی باتوں پر کبھی مشتعل نہ ہوں، جب تک تصدیق نہ کرلیں۔
مجھے یاد ہے انہوں نے کہا تھا میں چاہتا تو آپ کو پولیس کی طاقت سے وہیں روک دیتا لیکن میں نے مناسب سمجھا حقیقت آپ اپنی نظروں سے دیکھیں تاکہ کوئی افواہ نہ پھیلے اور شہر کا امن تباہ نہ ہو۔ میں سوچتا ہوں اس زمانے اور آج کے دور میں کتنا فرق ہے۔ اب کہیں دور بیٹھا بلکہ بیرون ملک بیٹھا کوئی شخص میرے گلی محلے کے بارے میں ایسی فیک نیوز پوسٹ کر دیتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ پھر ہم بلا سوچے سمجھے اور تصدیق کئے اسے شیئر کرتے رہتے ہیں۔ تیر کمان سے نکل جاتا ہے اور ہم ایسے نتائج کا سامنا کرتے ہیں جو ہمارے کسی عمل کا نتیجہ نہیں ہوتے۔
اب سوال یہ ہے اس طوفان کے آگے بند کیسے باندھا جائے؟ ایک طریقہ تو وہی ہے جو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ قانون کومتحرک کرکے اس وباکو روکا جائے مگر یہ طریقہ اس لئے زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا کہ جہاں اٹھارہ کروڑ افراد سوشل میڈیا استعمال کررہے ہوں، وہاں انہیں تلاش کرنا کہ کس نے کہاں کوئی پوسٹ شیئر کی ہے، بھوسے میں سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس دنیا میں کہیں سے بھی چلائے جا سکتے ہیں۔ کوئی ایک صوبہ یا کوئی ایک ملک پابندیاں لگا کر فیک نیوز کے پھیلاؤ کو نہیں روک سکتا۔ مثلاً پنجاب کے واقعہ پر اگر جنوبی افریقہ میں بیٹھا ہوا کوئی شخص یا پھر جنوبی وزیرستان میں رہنے والا کوئی صارف اپنی سوچ کے مطابق لاعلمی میں کوئی گمراہ کن پوسٹ لگا دیتا ہے تو اسے روکنے کی کوئی تکنیک موجود نہیں۔ اس کی پکڑ بھی نہیں ہو سکتی کہ وہ قانون کی دسترس سے باہر ہے۔
میرے نزدیک اس سارے مسئلے کاسب سے بہترین توڑ یہ ہے کہ سچ کو پوری قوت اور علمی طور پر سامنے لایا جائے۔ میں نے جس ڈپٹی کمشنر کی مثال دی ہے اس نے اس زمانے کے مطابق مسئلے کا بہترین حل تلاش کیا اور طالب علموں کو اپنی آنکھوں سے سچ دیکھنے کی راہ اختیار کی۔ اب بھی اگر کسی واقعہ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے کی بجائے سیدھے اور کھرے سچ کو سامنے لانے کی جرائت مندانہ پالیسی اختیارکرلی جائے تو فیک نیوز کے خواب سے بچا جا سکتا ہے اس حوالے سے یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ کسی واقعہ پر الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرل کرکے خبر روکنے کے احمقانہ عمل سے بھی گریزکیا جائے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو سوشل میڈیا عوام کی واحد ترجیح بن جاتی ہے، پھر اس پر جوکچھ نظر آتا ہے وہی سچ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ سچ نہیں ہوتا۔
(بشکریہ: روزنامہ پاکستان)