ڈاکٹر اسلم انصاری، قلزمِ خوں پار کر گئے

ملتان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ ہزار سال پرانا زندہ شہر ہے،اس شہر کی تہذیب و تمدن کی جڑیں صدیوں پر محیط ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس شہر نے ایسے تخلیق کاروں کو جنم دیا جو اپنے فن کی وجہ سے نہ صرف اس کی شناخت کا باعث بنے،بلکہ انہوں نے اپنی شخصیت کے سحر سے یہاں تہذیبی اقدار کے وہ شجر سایہ دار اُگائے جن کی چھاؤں میں آج بھی یہ شہر پیار محبت اور یگانگت کے اوصاف سے بہرہ مند ہے۔

 دو روز پہلے ایک ایسی تہذیبی و علمی شخصیت اس شہر سے اُٹھ گئی،جس نے اپنی85سالہ زندگی میں نہ صرف علم و فن کے چراغ جلائے،بلکہ اپنی شخصیت کے تہذیبی و فکری اوصاف سے پورے معاشرے کو متاثر کیا۔میری مراد پروفیسر اسلم انصاری سے ہے جن کا 22 اکتوبر کو ملتان کے ایک ہسپتال میں انتقال ہوا۔ڈاکٹر اسلم انصاری کی زندگی اس قدر متنوع ہے کہ اُس کا احاطہ کرنا دشوار نظر آتا ہے۔1939میں وہ ملتان کے قدیمی علاقے پاک گیٹ میں پیدا ہوئے اور اس شہر کو انہوں نے اپنی زندگی کا محور بنا لیا۔اُن کی شاعری اور فن کے ڈنکے پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں بجنے لگے،مگر انہوں نے ملتان کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔  البتہ اُس زمانے میں چونکہ اعلیٰ تعلیم کا مرکز لاہور ہوتا تھا،  اِس لئے1962 میں اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے اردو کرنے کے لئے داخلہ لیا۔لاہور میں اُن کی ملاقات اردو غزل کے سب سے بڑے شاعر ناصر کاظمی سے ہوئی اور اُن کی وساطت سے احمد مشتاق سے رابطہ ہوا ۔ یوں یہ سہ رکنی دوستی لاہور کا بڑا ادبی حوالہ بن گئی ۔تاہم ایم اے کرنے کے بعد ڈاکٹر اسلم انصاری ملتان آ گئے،جس کا ناصر کاظمی کو بہت دُکھ ہوا اور انہوں نے اپنی ایک غزل میں اس کا اظہار بھی کیا۔

ڈاکٹر اسلم انصاری سے لاہور کی یادوں پر جب بھی بات ہوئی وہ ناصر کاظمی کا ذکر ضرور کرتے۔البتہ اپنے پسندیدہ شاعروں میں وہ صرف چار شاعروں کا حوالہ دیتے میر، غالب، اقبال اور فراق۔ اُن کا کہنا تھا اِن تین شاعروں نے اردو شاعری کو جس کمال سے آشنا کیا ہے، اب کوئی دوسرا شاعر مشکل سے اُن کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ملتان واپسی پر انہوں نے لیکچرار اردو کی حیثیت سے محکمہ کالجز کو جوائن کیا۔ ملتان، بہاولپور میں خدمات سرانجام دیں تاہم زندگی کا بیشتر تدریسی فریضہ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ میں گزارا۔ یہیں سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر 1995میں ریٹائر ہوئے۔ اِس سے پہلے وہ 1985میں ایم اے فارسی بھی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے پرائیویٹ طالب علم کے طور پر کر چکے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی لگن اُن میں کم نہ ہوئی،انہوں نے1998 میں اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹر بن گئے۔

یہ تدریسی پیشہ اُن کی زندگی کا ایک حصہ تھا جبکہ دوسرا حصہ اُن کی وہ تخلیقی سرگرمیاں تھیں،جن کی وجہ سے اُن کی شہرت چہار دانگ عالم پھیل رہی تھی۔سب سے پہلے اُن کا حوالہ شاعری بنی،اُن کا شعری مجموعہ خواب و آگہی آیا تو ادبی دنیا میں گویا اُن کی شاعری کا ڈنکا بجنے لگا۔ وہ شاعرِِ محبت و جمال کی حیثیت سے معروف ہو گیا لیکن وہ یہیں ٹھہر نہیں گیا۔عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کسی شاعر کا مجموعہ کلام بہت مقبول ہو جائے تو اُس کے لئے مزید شعر کہنا نفسیاتی طور پر دشوار ہو جاتا ہے۔مگر ڈاکٹر اسلم انصاری کا تخلیقی سرچشمہ اس قدر فراواں تھا کہ انہوں نے اپنی شاعری کے سوتے خشک نہیں ہونے دیئے۔انہیں اورینٹل کالج لاہور میں ڈاکٹر وقار عظیم، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر وحید قریشی، فارسی میں پروفیسر تاج محمد خان اور انگریزی میں ڈاکٹر ویلٹی اور ڈاکٹر شیٹس کی رہنمائی حاصل رہی۔ اتنے عظیم المرتبت اساتذہ کی موجودگی میں اُن کے اندر بیک وقت اردو، انگریزی اور فارسی کی وہ تخلیقی صلاحیت پیدا ہوئی جس نے آگے چل کر اُن سے وہ محیر العقول تخلیقی کام کرائے جو ایک زندگی میں کئے ہی نہیں جا سکتے۔

 ملتان میں جب کچھ عرصہ پہلے اکادمی ادبیات کی طرف سے شائع کردہ اُن کے فارسی کلیات ”گلیانگ آرزو“  کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں اکادمی کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیہ عارف بھی شریک ہوئیں تو وہ بہت خوش تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجود اُس دن انہوں نے شاندار گفتگو کی،یہ تقریب اُن کی زندگی کی غالباً آخری تقریب تھی۔انہوں نے بتایا اس کلیات میں دس ہزار اشعار ہیں اور بیشتر اشعار ایسے نازل ہوئے ہیں جیسے موسلادھار بارش برستی ہے۔ اُن کا یہ فارسی کلام غالباً علامہ اقبالؒ کے بعد سب سے ضخیم ہے۔اُن کی شخصیت میں بیک وقت ایک شار، فلسفی، نقاد، محقق، مترجم، معلم اور مفکر موجود تھا، جو ان سے مختلف جہتوں میں ایسے فن پارے تخلیق کراتا رہا،جو اپنے معیار، علمی تشخص اور فلسفیانہ افکار کی وجہ سے بڑی انفرادیت کے حامل ہیں۔ یہ بہت اطمینان بخش امر ہے کہ اُن کی زندگی میں ہی اُن کی شاعری کے اردو اور فارسی کلیات شائع ہو چکے ہیں تاہم اُن کے ایک بہت چہیتے شاگرد ڈاکٹر نجیب جمال نے بتایا وفات سے دو دن پہلے اُن کی ڈاکٹر اسلم انصاری سے ایک گھنٹہ بات ہوئی۔وہ بتا رہے تھے کہ اب وہ اُن تحریروں کو جمع کر رہے ہیں،جو مختلف جرائد اور اخبارات میں شائع ہوئیں۔ لیکن ابھی تک کتابی شکل میں شائع نہیں ہو سکیں۔ ڈاکٹر نجیب جمال کا کہنا ہے اُن کی اچانک وفات کے بعد اب ملتان کے علمی حلقوں اور جامعات کے شعبہ ہائے اردو کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُن کی اس خواہش کو پورا کریں۔

ڈاکٹر اسلم انصاری نے نظم و نثر دونوں میدانوں میں تو گراں قدر اثاثہ چھوڑا ہے تاہم اقبالیات کے حوالے سے بھی اُن کا کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر انہیں اقبال ادبی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔خواجہ غلام فرید کی کافیوں کا ترجمہ انہوں نے انگریزی میں کیا تو اُن کی علمیت و زبان پر عبور کا ایک اور باب وا ہوا۔اس منفرد کاوش پر انہیں نیشنل بنک ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہیں 1969 حبیب بنک نے بھی ادبی ایوارڈ دیا اور1985میں خواجہ فرید ادبی ایوارڈ دیا گیا۔بعدازاں حکومت ِ پاکستان کی طرف سے انہیں تمغہ امتیاز اور تمغہ حسن ِ کارکردگی بھی ملا۔اُن کے تخلیقی سفر میں تنوع نظر آتا ہے۔وہ کسی ایک صنف تک محدود ہو کر نہیں بیٹھ گئے۔سرائیکی میں انہوں نے ”بیٹری وچ دریا“ لکھا جو ایم اے سرائیکی کے نصاب کا حصہ بن گیا۔

اوائل شباب میں اُن کی شخصیت کا گلیمر انہیں مرکز ِ نگا بنا دیتا تھا۔وہ جب ڈیپوٹیشن پر ملتان آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر بنے تو انہوں نے آرٹ کی سرگرمیوں کو ملتان کی پہچان بنا دیا۔وہ صحیح معنوں میں ملتان کی تہذیبی زندگی کا ایک مجسم استعارہ تھے۔انہوں نے خود ایک جگہ لکھا ہے شعرگوئی انہوں نے بارہ برس کی عمر میں شروع کی تھی۔ گویا 73برس تک وہ تخلیقی عمل سے وابستہ رہے اور علم و ادب کا ایسا ورثہ چھوڑ گئے جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

(بشکریہ: روزنامہ پاکستان)