عدلیہ کی خود مختاری پر بحث کی ضرورت

چھبیسویں آئینی ترمیم کے تناظر میں شروع ہونے والے مباحث اور سبک دوش ہونے والے  چیف جسٹس قاضی فائز  عیسیٰ کے اعزاز میں دیے گئے فل کورٹ ریفرنس سے  پانچ ججوں کی  غیر حاضری سے پیدا ہونے والی صورت حال  کاتقاضہ  ہے کہ ملک میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے اختیارات، ذمہ داری، حدود اور جواب دہی کے حوالے سے  مباحثہ کیا جائے ۔  کوئی بھی مہذب ملک کسی ایسی عدلیہ یا ججوں کا متحمل نہیں ہوسکتا  جو خود کو ہر قسم کی جواب دہی سے بالا سمجھنے پر اصرار کرتے ہوں اور  مثالی کردار سامنے لانے میں بھی  کامیاب نہ ہوں۔

ملکی آئین میں ہونے والی تازہ ترین ترمیم درحقیقت اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات پر پارلیمانی کنٹرول کے لیے کی گئی  ہے۔ اس حوالے سے سیاسی مباحث اور  پارٹیوں کی پوزیشن سے قطع نظر یہ توقع کی جاتی ہے کہ اعلی عدلیہ کے تمام جج اس قسم کی آئینی ترمیم کو ضروری اور خوش آئیند سمجھیں ۔ البتہ اگر ججوں کے ردعمل اور طریقہ  کار سے یہ  تاثر قائم ہونے لگے کہ متعدد جج پارلیمنٹ کی طرف سے آئینی ترمیم کے حق  کو ماننے پر آمادہ  نہیں ہیں اور ان کے  خیال میں ’پارلیمنٹ‘ کوئی ایسا کم تر ادارہ ہے جو عدلیہ جیسے  ’برتر ‘ ادارے کے بارے میں کوئی قدغن عائد کرنے کا اختیار نہیں رکھتاتو اس سے ملک کا پورا آئینی نظام زمین بوس ہوسکتا ہے۔

ملک کا عدالتی نظام اسی آئینی انتظام کے تحت   کام کرتا ہے جس کے تحت پارلیمنٹ قائم ہے، ملک میں انتخابات ہوتے ہیں اور  عوام کے منتخب کردہ نمائیندوں  کے ذریعے  سینیٹ و قومی اسمبلی کے علاوہ صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کرتی ہیں اور آئین   پر عمل داری کو یقینی بناتی ہیں۔  اس انتظام کا  فطری نتیجہ ہے کہ ملک کا وزیر اعظم قومی اسمبلی کو اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ صوبائی اسمبلیوں کو جواب دہ ہوتے ہیں۔  ان ہی اسمبلیوں کے ارکان وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب کرتے ہیں ، اس لیے انہیں ہی اپنے ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومتوں  سے جواب طلب کرنے، ان کی پالیسیوں و فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا حق حاصل ہے۔ یہی جمہوری طریقہ اور اسے ہی ملک کا آئین  مروج کرنے کا حکم صادر کرتا ہے۔

البتہ   ملکی تاریخ کے  مختصر جائزے سے دیکھا جاسکتا ہے کہ  ملک کی اعلیٰ عدالتیں اس جمہوری اور آئینی انتظام کو تسلیم کرنے میں پریشانی کا شکار رہتی ہیں۔  کسی نہ کسی  پٹیشن  پر سماعت کرتے ہوئے اکثر و بیشتر کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا کوئی جج کسی صوبائی حکومت یا مرکزی حکومت کو کٹہرے میں  کھڑا کرنے پر اصرار کرتا ہے۔   گزشتہ چند برسوں کے دوران خاص طور سے یہ مناظر دیکھنے میں آتے رہے ہیں کہ کوئی جج ، سرکاری وکیل کو دھمکاتا ہے  کہ اگر اس کی بات نہ مانی گئی (جسے وہ اپنی قانونی زبان میں حکم کہتے ہیں) تو وہ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کو عدالت میں طلب کرلیں گے۔  اس ملک  کی  تاریخ میں ایسے افسوسناک مراحل بھی  آئے ہیں  جب   سپریم کورٹ نے قانون  کی خود ساختہ تفہیم و تشریح کرتے ہوئے  ایک وزیر اعظم کو توہین عدالت کی  علامتی سزا دی اور اسے اسمبلی کا رکن بننے سے نااہل قرار دیا۔ ایک دوسرے معاملہ میں ایک وزیر اعظم کی تحقیق کے لیے ان سرکاری اداروں کے افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی  بنائی گئی  جو انتظامی لحاظ  سے اسی  وزیر اعظم  کے   ماتحت تھے۔  لیکن  اس خاص معاملہ میں  قائم جے آئی ٹی  کی نگرانی خود  سپریم کورٹ کے جج کے حوالے  کردی گئی۔

ان دو اہم تاریخی واقعات کا  حوالہ دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوں  کو  قانون کے مطابق  انصاف فراہم کرنے کے لیے  اختیارات دیے  گئے ہیں۔ ججوں کو قانون اور ضابطہ کے مطابق، ذاتی  بلکہ انسانی جذبات سے  ماورا ہوکر صرف قانون کی بنیاد پر کسی معاملے پر غور کرنے اور فیصلہ صادر کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ یہ اختیار  نہ تو غیر محدود ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کے استعمال کو غلطیوں سے پاک کہا جاسکتا ہے۔  البتہ جب اعلیٰ عدلیہ کے مناصب پر فائز جج حضرات خود  ہی قانون کی وضاحت کے نام  پر  اپنی ذاتی مرضی ٹھونسنے پر اصرار کرنے لگیں، اور آئینی شقات کی تفہیم بھی اپنی  صوابدید اور مصلحتوں کی بنیاد پر  ہونے لگے تو اس سے نہ تو انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی  کوئی قابل عمل نظام  فعال ہوسکتا ہے۔

اس  ملک میں چشم فلک  نے یہ منظر بھی دیکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے  ڈیم بنانے کے لیے  فنڈ قائم کیا اور سب اداروں کو پابند کیا گیا کہ وہ اس مقصد میں  ہاتھ بٹائیں۔ تب حکومت وقت نے خوشدلی یا مجبوری میں دنیا بھر میں سفارت خانوں کے ذریعے تقریبات کا اہتمام  کیا اور ان ملکوں میں آباد پاکستانی نژاد شہریوں کو اس  ’عظیم کام‘ میں اعانت کرنے   کی دعوت دی گئی۔ متعلقہ چیف جسٹس کی روانگی کے ساتھ ہی،  اس فنڈ میں رقوم جمع ہونے  کا سلسلہ بند ہوگیا۔ اس ساری کاوش میں جو کل اثاثہ جمع ہؤا، درحقیقت وہ اتنا سرمایہ بھی نہیں تھا کہ وہ کسی مناسب ڈیم منصوبے کے آرکیٹیکٹ کی فیس ادا کرنے کے قابل بھی ہوتا۔   البتہ قانون کی بالادستی کے نام پر یہ تماشہ  دکھایا گیا اور میڈیا میں چھائے رہنے کا اہتمام بھی ہؤا۔ ان صاحب کے سبکدوش ہونے کے بعد نہ کسی کو ڈیم یاد رہا اور نہ اس کے لیے عدالتی حکم کے تحت جمع ہونے والے وسائل  کے بارے میں سوال اٹھایا گیا۔  اس سوال کا جواب بھی  ہنوز جواب طلب ہے کہ  متعلقہ چیف  جسٹس نے کس قانونی اختیار اور کس علمی و پیشہ وارانہ استعداد کی بنیاد پر یہ فنڈ قائم کرنے کا اقدام کیا تھا۔

اس  حوالے سے  یہ پہلو تحقیق  طلب ہے کہ ڈیم  فنڈ جمع کرنے کے لیے  حکومت پاکستان کی  مختلف  مدات میں سے اٹھنے والے مصارف کتنے تھے اور  ان کاوشوں سے کل جمع ہونے والی رقم کتنی تھی۔ خاص طور سے بیرون ملک تقریبات کا اہتمام کرنے اور ان کے انتظام   کے لیے پاکستان سے بیرون ملک سفر  کے اخراجات کو اس حساب کتاب میں شامل کرنا اہم ہوگا۔  دیکھا جاسکتا ہے کہ کسی ادارے نے کبھی  نام نہاد ڈیم فنڈ اسکینڈل کے کسی پہلو کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی۔   اور نہ ہی سپریم کورٹ کے کسی جج  نے یہ نکتہ اٹھانے کی ضرورت محسوس کی کہ اس اہم ادارے کے نام پر ایسا تماشہ لگانے والے سابق چیف جسٹس سے جواب طلب ہونا چاہئے۔ یوں تو ججوں کا احتساب کرنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل موجود ہے لیکن دنیا کے سب ممالک کے برعکس اس کونسل میں  جج ہی ججوں کا احتساب کرتے ہیں اور ہمیشہ اس مقصد میں ناکام رہے ہیں۔   اس  ادارے  کے  جج  لامحدود اختیارات کو ’بیلنس آف پاور یااختیارات پر کنٹرول ‘ کے اصول کے تحت لازمی  سمجھتے ہیں ۔ اس لیے انہیں خود ہی بتانا چاہئے کہ پھر ان  کے لامحدود اختیارات پر کنٹرول کا کیا طریقہ ہوگا؟

ملکی تاریخ میں اسٹبلشمنٹ اور سیاسی حکومتوں کے درمیان چپقلش کوئی نئی بات نہیں  ہے۔   سیاسی و حکومتی معاملات میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت اور بالادستی  بھی اب کوئی قومی راز نہیں بلکہ گلی گلی زیر بحث آنے والی نکتہ بن چکی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو یہ طاقت  ، سیاسی پارٹیوں و لیڈروں کے باہمی اختلافات  کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ موجودہ حالات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے مواصلت کرنے اور باہمی تعاون اور افہام و تفہیم سے معاملات طے کرنے کی بجائے ’طاقت کے اصلی مراکز‘ سے رابطہ رکھنے اور انہیں خوش کرنے پر زور دیتی ہیں۔ البتہ اس کمزوری کے باوجود جب تک ملک میں انتخاب ہورہے ہیں اور پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے  ، اس وقت تک  یہ امید کی جاسکتی ہے کہ سیاسی سطح پر  ایسی پیش رفت ممکن ہوگی کہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ  لین دین میں توازن قائم ہوتا رہے۔

 اس حوالے سے جس ادارے کا کردار سب سے زیادہ افسوسناک رہا اور جس کے بارے میں سب سے کم بات ہوتی ہے، وہ عدلیہ کا کردار ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے  اپنا وزن آئین اور جمہوری قوتوں کے پلڑے میں ڈالنے کی بجائے  اسے ہمیشہ فوجی حکمرانوں کی حمایت میں استعمال کیا۔  اس کے باوجود کبھی کسی عدالت نے  عدلیہ کے اس کردار کو زیر بحث لانے ، ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کرنے اور مستقبل میں راستہ درست کرنے کی ضرورت پر زور نہیں دیا۔ یہ وہی قابل قدر عدالتیں اور عزت مآب جج حضرات ہیں جو فوجی آمروں کی آئین میں شامل کردہ ترامیم کو تو من و عن مان رہے ہیں لیکن پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کے علاوہ  کوئی  ’ناپسندیدہ‘ قانون منظور  ہونے پر چیں بچیں  ہوتے  ہیں۔

عدلیہ کا یہ کردار ملکی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔  ملک کے بیشتر تجزیہ نگار بعد از وقت ہی سہی لیکن تمام فوجی آمروں کے منفی کردار، آئین شکنی اور غیر قانونی اقدامات پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور ان کے عیوب  سے  پردہ بھی اٹھاتے ہیں۔ لیکن اس تنقید میں کبھی عدالتوں کے ان  ’ہونہار ‘ ججوں کا   ذکر نہیں ہوتا جو ان فوجی حکومتوں کو جائز قرار دینے اور غیر قانونی اقدامات کو درست سمجھنے میں تمام فوجی حکمرانوں کا دست و بازو بنے تھے۔   فوجی آمروں کا احتساب تو تاریخ کررہی ہے لیکن  اپنے عہد  کی خلاف ورزی کرنے والے ججوں  سے کون جواب طلب کرے گا۔ ملک کے چیف جسٹس کو سو موٹو کے تحت  ایسا اختیار حاصل رہا ہے جس کا بے دریغ  اور بیشتر اوقات بلاجواز استعمال کیا گیا لیکن کسی چیف جسٹس کو اس اختیار کے تحت اپنے ہی کسی بھائی بند سے جواب طلب کرنے اور بعد از وقت ہی سہی،  اسے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور قوم کا مجرم قرار دینے کا حوصلہ نہیں ہؤا۔ ایسا غیر متوازن رویہ رکھنے والے ادارے کو کیسے بے لگام چھوڑا جاسکتا ہے؟

سیاسی لڑائی کی وجہ سے 26 ویں ترمیم کے حوالے سے موشگافیاں کرتے ہوئے اسے کسی بھی طرح موجودہ حکومت کے مفادات سے نتھی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے  لیکن درحقیقت یہ ترمیم بھی ملکی عدلیہ کو مکمل طور سے  جواب دہ نہیں بنا سکی ۔  اب بھی اعلیٰ عدالتوں میں ایسے جج موجود ہیں جو آئین کے بارے میں  پارلیمنٹ  کے اختیار سے زیادہ  اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں۔ اسی لیے متعدد حلقوں کی جانب سے اس ترمیم کو عدالتوں میں چیلنج کرکے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔    پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ کا احترام کرنے پر  قاضی فائز عیسیٰ کی  توصیف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کیسے ان کی موجودگی میں ہی یہ ترمیم ممکن تھی۔ کیا قوم کو جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیا وجہ ہے کہ چند ججوں کی وجہ سے کیسے ملک کی منتخب پارلیمان کے حق قانون سازی کو محدود کیا جاتا ہے اور اب بھی بعض جج اس کا پرچار کرکے  اپنی انا کو تسکین پہنچانا چاہتے ہیں۔

قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس میں  شرکت نہ کرنے والے جج       پارلیمنٹ کے  اختیار پر سپریم کورٹ کو  ’ویٹو‘  کا  حق دینا چاہتے ہیں۔ انہیں  پارلیمنٹ کے کلی اختیار کو تسلیم کرنے کے لیےقاضی فائز عیسیٰ  کا طریقہ ناگوار گزرتا رہا ہے۔ اس کا اظہار مخصوص نشستوں کے فیصلے میں بھی ہؤا اور اب  فل کورٹ ریفرنس سے غیر حاضری کے ذریعے اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ بلکہ سینئرجج جسٹس منصور علی شاہ نے تو ایک خط    میں سبکدوش چیف جسٹس پر عدلیہ کو کمزور کرنے اور عدالتی اختیار  پر ہونے والے حملوں   میں  ’شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دبائے رکھنے‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے   شدید غصہ کا اظہار بھی کیا ہے۔

ایک قابل احترام قانون دان اور معتبر جج ہونے کے باوجود جسٹس منصور علی شاہ  اس خط  میں  ذاتی  الزام تراشی  سے  اوپر نہیں اٹھ سکے۔ عدلیہ کا عمومی کردار اور جسٹس منصور علی شاہ کے خط سے سامنے آنے والے  رویہ کے پیش نظر یہ سمجھنا اہم ہے کہ عدلیہ کی اصلاح کا کام صرف 26 ویں ترمیم کے نفاذ سے مکمل نہیں ہوگا۔ عدلیہ کے اختیار ، حقوق و قیود اور جوابدہی  کے لیے پارلیمنٹ اور عمومی مباحث کی ضرورت ہے تاکہ اس نامکمل کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔