رنگو دادا المعروف انیس احمد

مجھے یاد ہے کہ یہ 2013 کا سن تھا جب انیس احمد کی کتاب ’’جنگل میں منگل‘‘ مجھے بہم ہوئی۔ پندرہ سال پہلے میں نے جب پاکستانی معاشرت کی یہ تاریخ پڑھی تو انگشت بدنداں رہ گیا ۔

یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز ہونے کے ساتھ اردو نثر نگاری کا وہ چوتھا اسلوب ہے جسے فسانہ عجائب اور حصہ چہار دوریش کے طلسماتی قلم  نے پہلا قط لگا کر انیسیات کی بنیاد رکھی ۔ انیس کی نثر نگاری وہ اسلوب ہے جو اس دھرتی کے مقامی رنگ میں رنگا ہے اور جیسے ایک نفسیاتی تجزیہ کار ہے جس نے اپنی فکری بوقلمونیوں سے اردو نثر کی ایک نئی پرت ایجاد کی ہے ۔

انیس کی ناول نگاری چولستان کی ریت کا وہ تخلیقی مظہر ہے جس نے انتظار حسین کی بستی اور عبداللہ حسین کی اداس نسلوں کی تخلیقی ندی کو عبور کر کے ایک الگ اسلوب وضع کیا ہے۔ لیکن انیس احمد کی نثر اور اس میں بیان کئے ہوئے حالات و واقعات اور سانحات اس کتاب کو ایک سوانحی مزاج سے آشنا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسے شخص کی داستان حیات ہے جو چولستان کا بیٹا اور ایک ایسے نظریاتی معاشرے کا ناظر و ناقد ہے جس میں وہ پیدا ہوا، اتارا گیا اور جہاں اس نے رنگو دادا کے روپ میں اپنی آپ بیتی لکھی اور اپنی علاقائی ثقافت کے پہلوؤں کو بے نقاب کیا۔

انیس کی نثر نگاری خاصے کی چیز ہے اور اردو زبان کو برصغیر پر حملہ آور ہونے والی بدیشی اقدار سے آزاد کر کے نفسیاتی اور روحانی شاہراہ کی چوتھی سمت دکھاتی ہے۔ ہمارے ہاں جو زبان قومی زبان کے طور پر رائج رہی ہے، وہ معاشرے پر مسلط سیاسی طاقتوں کے جبر کا حاصل تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب لشکر اور اس لشکری زبان کا فیضان ہے کہ ہم بطور قوم چار مارشل لاؤں کے گھاٹ اتارے گئے اور جب تک یہ درآمد شدہ لب و لہجے اور حملہ آوروں کے نفسیاتی شکنجوں سے رہائی نہیں ملتی تب تک ایک پاکستانی قومی زبان وضع ہو کر رائج نہیں ہو سکتی۔

انیس احمد نے جس ندرت اور فنکاری سے اپنے معاشرے کی زبان کو مقامی رنگ و روپ اور لب و لہجہ دیا ہے، وہ پاکستان کی اردو المعروف پردو کا دبستان متعارف کرواتا ہے۔ اور جنگل میں منگل کے فکری دیوتاؤں کا خوفناک انجام مجھ ایسے پنجاب کے پینڈو کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ہمارے ماقبل تقسیم کے نثر نگاروں نے جس ایڈیم کو رواج دیا وہ حکمران قوتوں کی آشیرباد سے سکہ رائج الوقت تھا اور پاکستان کی قومی زبان کو قرار پایا لیکن عوامی زبان نہ بن سکا۔ اور جب تک اس زبان میں مقامی زبانوں کے الفاظ شامل ہو کر اسے پاکستانیوں سے ہمکنار نہیں کرتے تب تک یہ زبان درآمدی مال ہی رہے گی اور اسکولوں کالجوں اور روایتی ادیبوں اور شاعروں کی زبان بنے گی۔ تب تک اس کی جڑیں ہماری مٹی میں گہرائی تک رسائی نہیں پائیں گی۔ انیس احمد نے اپنی دونوں کتابوں میں جس اسلوب کو برتا ہے، وہ پاکستانی نثر نگاری کا منفرد اسلوب ہے اور انیس احمد کا یہ تخلیقی معرکہ جاری رہے گا اور مستقبل کی پاکستانی زبان اسی تجربے کو برقرار رکھے گی۔ اور رنگو دادا اپنے جنگل میں منگل کو برپا کر کے نکے کی خوشیوں کے سامان مہیا کرے گا۔

مجھے اعتراف ہے کہ میں اردو نثر نگاری کے تمام اسکولوں سے منسلک نہیں رہا لیکن بطور ایک قاری مجھے رنگو دادا کی نثر وہ سوغات لگی جسے میں خواندگی کے باغ میں دیکھ کر نہال ہوا جاتا ہوں۔ رنگو دادا زندہ باد

(26 اکتوبر بروز ہفتہ حلقہ ارباب ذوق ناروے کے زیر اہتمام انیس احمد کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا)