مخصوص نشستوں کا مسئلہ سیاسی طور سے حل کیاجائے

تحریک انصاف نے  سپریم کورٹ میں  الیکشن کمیشن کے  خلاف توہین عدالت  کی کارروائی شروع کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔ یہ درخواست پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے دائر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن 12 جولائی کے فیصلے پر عمل درآمد میں  ناکام رہا ہے لہذا اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔

 اس سے پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر  ایاز صادق نے گزشتہ رات ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا  کہ وہ عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کریں گے بلکہ اس بارے میں الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کا انتظار کریں گے۔ ملک کی حساس سیاسی صورت  حال اور اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ تصادم کے حالات  پیدا کرنا غیر ضروری ہے۔  یہ اہم ہے کہ  مخصوص سیٹوں کے سوال پر سیاست کرنے کی بجائے سب سیاسی پارٹیاں باہمی اتفاق رائے سے اس  مسئلہ کا کوئی سیاسی حل تلاش کریں۔  26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں آئینی معاملات پر غور کے لیے علیحدہ بنچ قائم کیا جائے گا۔  اس لیے سیاسی  طور سے اس مشکل سوال   کو حل نہ کیا گیا تو ملک میں مسلسل سیاسی کشیدگی اور کھینچا تانی کا ماحول موجود رہے گا۔ اس طرز عمل سے نہ تو پارلیمنٹ  با اختیار ہوجائے گی، نہ کوئی ایک سیاسی پارٹی  بڑا فائدہ اٹھا سکے گی اور نہ ہی سپریم کورٹ کو متنازعہ  کرنے  یا  کسی نئے   اختلاف کا حصہ بنانے سے کوئی خوشگوار صورت  حال  دیکھنے میں آئے گی۔

حال  ہی میں ملک کی سب سیاسی پارٹیوں نے عدلیہ کے اختیارات اور تقریوں کے حوالے سے 26 ویں ترمیم منظور کی ہے۔ اگرچہ اس ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی جارہی ہیں لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے  کہ سپریم کورٹ   ان درخواستوں پر سماعت کرکے کوئی ریلیف دے سکتی ہے۔ اسی آئینی ترمیم کے تحت مخصوص پارلیمانی کمیٹی نے  نئے چیف جسٹس کا فیصلہ کیا اور اسی بنیاد پر وزیر اعظم نے صدر مملکت کو اس عہدے پر جسٹس یحییٰ آفریدی کو مقرر کرنے کی استدعا کی،  جسے قبول کرلیا گیا۔ ہفتہ کے روز ایوان صدر میں  نئے چیف جسٹس نے اپنے عہدے کا  حلف اٹھایا اور کام شروع کردیا۔ آج نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہؤا جس میں تمام ججوں نے شرکت کی ۔ سینئر جج منصور علی شاہ ملک میں موجود نہیں تھے لیکن  انہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے اس اجلاس میں شرکت کی اور عدالتی انتظامی امور کے حوالے سے متعدد تجاویز  دیں۔ فل کورٹ اجلاس میں زیر التوا مقدمات،  ان  کے اندراج اور نمٹانے سے متعلق  کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔  اجلاس میں  زیر التوا مقدمات میں کمی   اور  طریقہ کار میں مزید بہتری لانے کیلئے ایک ماہ ، تین ماہ  اور چھ ماہ کے پلان پر غور کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ فوجداری اور سول مقدمات میں دو اور تین رکنی بنچز میں مقرر کیے گئے تاکہ جلد فیصلے ہوسکیں۔  تمام ججز نے مقدمات جلد نمٹانے کے  لیے اپنی آراپیش کیں۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کا جائزہ  لینے کے لئے 2 دسمبر کو  پھر فل کورٹ اجلاس منعقد ہوگا۔

اس پیش رفت سے یہ واضح ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔  سیاسی طور سے بھی اس پر اتفاق رائے ہے جبکہ عدلیہ  کی طرف سے بھی   اس ترمیم کے حوالے سے کسی تصادم  کی طرف بڑھنے  کا اندیشہ نہیں ہے۔  جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ ان سب ججوں نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی ۔ اسی طرح آج فل کورٹ اجلاس میں بھی سب جج شریک تھے اور کسی نے نئے چیف جسٹس یا  ان کے اختیار کے حوالے  سے کوئی سوال نہیں اٹھایا۔  ییہ ایک خوشگوار اشارہ ہے حالانکہ ترمیم منظور ہونے سے پہلے یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ مخصوص نشستوں پر فیصلہ دینے والے آٹھ اکثریتی ججوں نے درحقیقت  اپنے حکم پر عمل درآمد کرانے کی اپنی سی پوری کوشش کی تھی تاکہ کسی طرح عدلیہ   پر پارلیمانی کنٹرول کے بارے میں نئی ترمیم منظور ہونے میں رخنہ ڈالا جاسکے۔ اس وجہ سے بھی مخصوص نشستوں پر عدالتی فیصلہ  تنازعہ کا شکار رہا ہے۔

ایک تو 13 رکنی بنچ میں شامل پانچ ججوں نے اکثریتی فیصلہ سے اتفاق نہیں کیا بلکہ بعض نے تو اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے  ناقابل قبول قرار دیا۔   سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریٹائرمنٹ سے دو روز پہلے  مخصوص نشستوں کے کیس میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ ’چونکہ اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیلوں کی سماعت نہیں ہوئی،  اس لیے آئین کی شق 189 کے تحت اس فیصلہ پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔ اسی طرح اسی جواز کی بنیاد پر شق 204 کے تحت  کسی حکم کو نافذ نہ کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی نہیں کی جاسکتی‘۔

اس حوالے سے پاکتسان تحریک انصاف کا کردار بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ پارٹی عملی طور سے  26 ویں ترمیم کو  منظور کرچکی ہے۔ چیف جسٹس کی تقرری کے لیے قائم ہونے والی  خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے پارٹی نے چار ارکان نامزد کردیے  تھے لیکن بوجوہ اس کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ تاکہ سیاسی طور سے وہ ترمیم کی مخالفت کا ڈھونگ جاری رکھ سکے۔ اس ترمیم کے لیے تحریک انصاف کی رضامندی کا ایک ثبوت آج بھی فراہم کیا گیا ہے جب پارٹی کی سیاسی کمیٹی نے جوڈیشل کمیشن میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کمیشن نئی آئینی ترمیم کے تحت ہی قائم ہوگا ۔ اس میں چار سینٹر اور ارکان قومی اسمبلی شامل کیے جائیں گے جن میں سے اپوزیشن پارٹیوں کو ایک ایک رکن نامزد کرنے کا حق حاصل ہے۔ تحریک انصاف نے اب اسی استحقاق کو استعمال کرنے کا  اعلان کیا ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ  کوئی پارٹی چھبیسویں ترمیم کے تحت قائم ہونے والے اداروں میں شریک بھی ہوجائے لیکن اس  ترمیم کو قبول کرنے سے انکار کرتی رہے۔  ظاہر ہے کہ  یہ طرز عمل سیاسی بازی گری کے سوا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ اگرچہ تحریک انصاف نے موجودہ حکومت کے خلاف سیاسی مہم جوئی کے لیے 26 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیا لیکن عملی طور سے اس نے اس کی  منظور ی  میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ بلکہ مولانا فضل الرحمان کے ذریعے متعدد تجاویز کو نئی ترمیم  میں شامل کرایا گیا۔

اس پس منظر میں سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلہ پر عمل درآمد نہ کرنے پر چیف  الیکشن کمشنر اور اس کے چاروں ارکان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی کوئی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔   البتہ اگر تحریک انصاف سپریم کورٹ پر ایسا دباؤ  ڈالنے کی کوشش کرے گی تو اس سے فساد  اور مشکلات میں اضافہ ہوگا۔  توہین عدالت کی  کارروائی شروع ہوتی ہے تو ایسے متعدد قانونی نکات بھی سامنے آئیں گے جن کے بارے میں اکثریتی فیصلہ کرنے والے ججوں کو  شاید اپنے کردار کے حوالے سے  ناخوشگوار سوالوں کا سامنا بھی  کرنا پڑے۔ خاص طور سے اس حکم پر عمل کرنے کے لیے جاری کیے دو نوٹس کا معاملہ دلچسپ اور متنازعہ مباحث کا  سبب بنے گا۔ یہ اختلافی نوٹ کسی باقاعدہ عدالتی کارروائی اور کسی جوڈیشل روایت کے بغیر جاری کیے گئے۔ خاص طور سے دوسرا نوٹ اس لحاظ سے  بھی بے معنی  تھا کہ اس وقت  تک اکثریتی ججوں کا تفصیلی فیصلہ جاری ہوچکا تھا۔  اس طرح اس معاملہ پر غور کرنے والا بنچ ختم ہوچکا تھا ۔ اس بنچ میں شامل کوئی جج یا ججوں کا کوئی گروپ کسی اختیار کے تحت نیا ’حکم‘ جاری کرنے کا مجاز نہیں تھا۔   اس نوٹ میں الیکشن ایکٹ کی ایسی ترمیم کو مسترد کیا گیا جس پر کسی عدالت میں نہ تو غور ہؤا اور نہ ہی حکم جاری ہؤا۔ لہذا سوال پیدا ہوگا کہ ایک ختم ہوجانے والے بنچ میں شامل بعض ججوں نے کس اختیار کے تحت  الیکشن کمیشن کو یہ حکم دیا تھا کہ اس قانون کو نظر انداز کرکے ان کے  حکم کے مطابق  مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دے دی جائیں۔

البتہ ان تضادات کے باوجود اس مسئلہ کے سیاسی اور اصولی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت سمیت سب سیاسی پارٹیاں تحریک انصاف کو  پارلیمنٹ کی بڑی  پارٹی مانتی ہیں۔ یہ ایک قانونی تکنیکی نکتہ ہے کہ چونکہ ان ارکان نے آزاد حیثیت میں  انتخابات  میں حصہ لیا تھا ، اس لیے ان کی پارلیمانی قوت کو ماننے کی بجائے پارٹی کو مخصوص نشستوں میں حصہ دینے سے گریز کیا جائے۔ اس مسئلہ کو سیاسی افہام و تفیم سے حل کرنا ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بخوبی جانتی ہیں کہ اصولی طور سے تحریک انصاف ان مخصوص سیٹوں کی حق دار ہے۔ الیکشن کمیشن کے سابقہ فیصلہ کے مطابق   دیگر پارٹیوں کو یہ سیٹیں تقسیم کرنا  ناجائز اور افسوسناک طریقہ تھا۔ اسی طریقے کو دوبارہ نافذ کرنے کی خواہش کرنا بھی  درست نہیں ہوسکتا۔

فروری میں  منعقد ہونے والے انتخابات بدستور متنازعہ   ہیں اور موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوال بھی اٹھائے جاتے ہیں۔  حکومت کے پاس یہ نایاب  موقع ہے کہ مخصوص  سیٹوں کو عزت کا مسئلہ بنانے کی بجائے انہیں تحریک انصاف کو دینے پر اعتراض نہ کیا جائے۔ اسی طرح تحریک انصاف کو بھی اس معاملہ میں عدالتوں  کو ملوث کرنے کی بجائے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے ذریعے یہ معاملہ سلجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

حکومت مخصوص سیٹوں پر تحریک انصاف کا حق مان کر اور تحریک انصاف اس حکومتی فیصلہ کو خیر سگالی کی ایک عمدہ مثال تسلیم کرکے پارلیمنٹ میں  باہمی تعاون اور اہم قومی مسائل پر بات چیت کا راستہ ہموار کرسکتی ہیں۔  اس طرح  سپریم کورٹ  بھی اس بوجھ سے باہر نکل آئے گی کہ اس کے حکم کے مطابق مخصوص نشستیں تقسیم نہیں ہوئیں۔ حکومت کو 26 ویں ترمیم کے حوالے سے ہی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنے کا اندیشہ تھا۔ اسے خطرہ تھا کہ ایسی صورت میں شاید اس کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اب یہ مرحلہ گزر چکا ہے اور چھبیسویں ترمیم آئین پاکستان کا حصہ بن چکی ہے۔  اس لیے اب ماضی میں جھانکنے کی بجائے آگے بڑھنے اور ملک و قوم کو ایک مشکل سیاسی دلدل سے نکالنے کی ضرورت ہے۔

شہباز شریف (یا شاید نواز شریف) اور بلاول بھٹو زرداری کو یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ جیسے چھبیسویں آئینی ترمیم پر تحریک انصاف کا تعاون حاصل کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمان کا  کاندھا استعمال کیا گیا تھا، اسی طرح  اب بھی وہ ضرور معاونت پر آمادہ ہوں گے۔  سیاسی لیڈروں کو اب معمولی اختلافات بھلا کر قومی اصلاح کے بڑے  منصوبہ  پر کام کرنا چاہئے۔