آئینی ترامیم کی گنتی کہاں رکے گی؟
- تحریر نسیم شاہد
- منگل 29 / اکتوبر / 2024
آئینی ترامیم کا معاملہ اب گنتی یاد کرنے کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے ۔ابھی 26ویں آئینی ترمیم کے دوران روا رکھے گئے واقعات کی گرد تھمی نہیں تھی کہ ستائیسویں ترمیم کا شوشہ سامنے آ گیا۔
آئین بنانے والے عالم برزخ میں بیٹھے حیران ہوئے ہوں گے کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے، کسی کو چھینک آ جائے تو آئینی ترمیم کی جائے، کسی کو بھوک نہ لگ رہی ہو تو آئینی ترمیم کا راستہ اختیار کیا جائے، کیا یہ سب کچھ نظریہء ضرورت کے تحت ہو رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ایک متفقہ آئین کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی کوئی نہیں۔ سوال تو اٹھ رہے ہیں کہ جب 26ویں ترمیم کے لئے پورا زور لگایا جا رہا تھا، بھانت بھانت کے بیانات دیئے جا رہے تھے تو اس بات پر غور کیوں نہیں کیا گیا کہ کچھ سامان رہ تو نہیں گیا جسے ترمیم میں ڈالنا ضروری ہو۔
ہمارے ایک بزرگ دوست ہمیشہ یہ نصیحت کرتے ہیں جب بھی کہیں سفرپر جانا ہو، دو دن پہلے اپنا سامان اور بیگ تیار کرکے ایک طرف رکھ دو، آخر میں تیاری کرو گے تو کبھی ٹوتھ برش رہ جائے گا اور کبھی چارجر بھول جاؤ گے۔ 26ویں ترمیم کا تو ماجرا ہی سب سے الگ تھا۔ آخر تک کسی کو معلوم ہی نہیں تھا، ڈرافٹ کیا ہے، کس کے پاس ہے، مختلف ڈرافٹ اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے اور کوئی نہیں جانتا تھا ان میں اصلی اور حتمی کون سا ہے؟ جب آئینی ترامیم اس انداز سے ہوں گی تو یہی ہوگا کہ اگلے اسٹیشن پر جا کر پتہ چلے گا سامان میں کچھ اہم چیزیں تو رہ ہی گئیں۔ اب یہ 27ویں ترمیم کیا گُل کھلانے والی ہے، اس کا تو پتہ نہیں مگر سوال یہ ہے اس ترمیم کے بعد سلسلہ رک جائے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا،27کے بعد 28اور 28کے بعد29ویں ترمیم کرنا پڑے گی۔ مانا کہ آئین ایک بے زبان کتابچہ ہے مگر اس کے ساتھ ملک کی سلامتی، یکجہتی اور نظام جڑا ہے، اگر سنجیدگی کے ساتھ فیصلے نہ کئے گئے، ہر صبح اٹھ کر واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ حل نکالا گیا کہ ایک اور ترمیم کر دی جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، پھر بھی نہ ہوا تو ایک اور ترمیم لے آئیں گے۔ طریقہ تو ہمیں آ ہی گیا ہے نمبرکیسے پورے کرنے ہیں، تو پھر ہم اس مرحلے کی طرف چلے جائیں گے جہاں انتشار و اختراق کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
اپوزیشن کے دعوے ہیں کہ اپنی مرضی کا چیف جسٹس لانے کے باوجود موجودہ حکومت چیف جسٹس کے ابتدائی ایک دو احکامات سے مطمئن نہیں۔ خاص طورپر پریکٹس اینڈ پروسیجرل کمیٹی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی واپسی گویا خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگرچہ 27ویں مجوزہ ترمیم کو نام یہ دیا جا رہا ہے، اس میں صوبوں کی خودمختاری کو یقینی بنایا جائے گا۔ حالانکہ 18ویں ترمیم میں صوبوں کو جتنی خود مختاری دی گئی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہوتا یہی ہے کہ ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔ پنجابی میں اسے سجی دکھا کے کھبی مارنا کہتے ہیں۔ بلاول بھٹو اور وزیراعظم شہبازریف کی ملاقات میں اس بات پر اطمینان تو ظاہر کیا گیا ہے کہ وزرائے اعظم کی برطرفی کے سلسلے کو روک دیا گیا ہے مگر لگتا ہے ابھی کچھ خدشات موجود ہیں۔ ایک ماہر قانون نے بتایا اب جو ترمیم لائی جائے گی اس میں پریکٹس اینڈ پروسیجرل کمیٹی کے ارکان کی تعداد بڑھا دی جائے گی۔تین کی بجائے پانچ ہو سکتے ہیں، اسی طرح جو دوسینئر جج چیف جسٹس کے ساتھ بیٹھے ہیں انہیں کارنر کرنے میں آسانی رہے گی۔ میں نے کہا گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں چیف جسٹس کو حکومتی شخصیات اپنا سمجھ رہی ہیں اور ان کے ساتھ دو من پسند ججز بٹھاکر مرضی کے بنچ بنوانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا لگ تو ایسا ہی رہا ہے۔ گویا ترمیم 26ویں ہو یا 27ویں معاملہ صرف سپریم کورٹ پر قابو پانے کا ہے۔ اب سوال یہ ہے 27ویں ترمیم کے لئے کیا وہی آنکھ مچولی شروع ہو گی جو 26ویں کے وقت رہی۔ وہی بندے توڑنا، بندے اٹھانا، عین وقت پر ایوان میں لانا، آئینی ترمیم کو کچھ ممبران کے لئے اربوں کی کمائی کا ذریعہ بنانا۔ سارے ملک کے معاملات اور حکومتی کاموں کو روک کر ایک طرف لگ جانا، کیا اب ہمارا یہی کام رہ گیا ہے۔ پہلے ہی ملک دو ماہ سے اسی ترمیم کے چکر میں تعطل کا شکار ہے۔ فیصلے ہو رہے ہیں اور نہ عوام کے مسائل حل کرنے پر کوئی توجہ دی جا رہی ہے ۔
اسی 1973 کے آئین کی تاریخ بتا رہی ہے کہ ایک ترمیم کے چند دنوں بعد دوسری ترمیم لانے کی روایت تو کبھی رہی نہیں ۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ کئی کئی سال ترمیم کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔ شاید وہ پارلیمنٹیرین اتنے ذہین نہیں تھے، جتنے آج شہبازشریف اور بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ رہی بات مولانا فضل الرحمن کی تو کوئی ترمیم ان کی حمایت کے بغیر نہیں ہوتی اور یہ بھی سچ ہے وہ عین عصر کے وقت روزہ بھی توڑ دیتے ہیں۔ اب بھی انہوں نے کہا کسی صورت 27ویں ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے، اب اگلے کچھ دنوں تک ان کا گھر مرجع خلائق بن جائے گا۔ ایک آئے گا دوسرا جائے گا۔ یہ ڈرامہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ایوان میں ترمیم پیش کرنے کی گھڑی نہیں آجاتی، پھر مولانا یہ ارشاد فرمائیں گے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ترمیم کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے سیاست کے منہ سے زہریلے دانت نکالنے کا جملہ پھر دہرائیں۔
ہمارے ارباب اختیار شاید سمجھتے ہیں اس وقت سب کچھ اپنی دسترس میں ہے اس لئے کچھ بھی کیاجا سکتا ہے۔ ملک کے اندر سب اچھا کی رپورٹ دینے والے موجود ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کوئی خلا میں موجود ملک نہیں، اسی گلوبل ویلج کا حصہ ہے۔ آئینی ترامیم کے حوالے سے عالمی سطح پر جو چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور جس طرح کا ردعمل آ رہا ہے، اس سے نظریں چرا لیں تو اور بات ہے وگرنہ جس انداز میں سب کیا جا رہا ہے اس پر اعتراضات اٹھ رہے ہیں اور پاکستان میں عدلیہ کو بے اختیار کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ کہنا بہت آسان ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے معاملات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا تاہم ہر ملک کے بارے میں عالمی رائے عامہ کی بالآخر کوئی نہ کوئی اہمیت ضرور ہوتی ہے۔
آئین میں ترمیم کوئی انہونی بات نہیں لیکن اس کے لئے جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے، وہ جمہوری آزادیوں کی نفی کا تاثر دیتا ہے۔ اگر حکومت اور اس کے اتحادی 27ویں ترمیم لانا چاہتے ہیں تو بے شک لائیں۔ تاہم اس کا مسودہ عوام کے لئے پہلے مشتہر ہونا چاہیے۔ چوری چھپے کا راستہ اس لئے بھی مناسب نہیں کہ پھر ایسے بہت سے خلاء رہ جاتے ہیں جنہیں پُر کرنے کے لئے ایک اور ترمیم لانا پڑتی ہے، ترمیم لانے کی گنتی کو روکنے کی ضرورت ہے وگرنہ یہ سب کچھ ایک کھیل بن جائے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ پاکستان)