فقیروں کی مجوزہ آئینی ترامیم

کچھ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے ، مبارک باد کا کارن یعنی سبب کسی کی سمجھ میں آرہا تھا اور کچھ لوگوں کی سمجھ بوجھ سے بعید تھا۔

مبارک وصول کرنے والے شخص نے مبارک باد دینے والے شخص سے کہا’تمہیں کسی نے غلط خبر دی ہے میرے بھائی۔ میرے ہاں سات بیٹیوں کے بعد بیٹا پیدا نہیں ہوا ہے۔ آٹھویں مرتبہ بھی میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔
’’فٹے منہ‘‘ مبارک باد دینےوالے شخص نے کہا۔ ’’میں تو تمہیں چھبیس ویں آئینی ترمیم کی مبارک باد دے رہا تھا۔‘‘
حواس باختہ شخص نے پوچھا۔ ’’اس کارنامے کے بعد کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا؟‘‘
دوسرے کسی شخص نے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے دوسرے کسی شخص کو مبارک باد دی۔ ’’بھئی، بہت بہت مبارک ہو۔‘‘
حیران ہوتے ہوئے مبارک باد وصول کرنے والے شخص نے پوچھا۔ ’’کیا آلو پیاز سستے ہوگئے ہیں؟

مبارک باد دینے والے نے غصہ سے تلملاتے ہوئے کہا ’’ابے پاگل ہو گیا ہے کیا؟‘‘
پریشان حال شخص نے پوچھا ’’تو کیا آٹا، چاول اور دالیں سستی ہو گئی ہیں؟‘‘
’’تیرا سر سستا ہو گیا ہے۔ ’’مبارک باد دینے والے شخص نے غصے سے کہا ، ’’پچیس کروڑ لوگوں کی قسمت کو چھبیسویں آئینی ترمیم نے چار چاند لگا دیئے ہیں۔‘‘

تماشہ دیکھنے والے ایک بوڑم نے پوچھا ’’پچیس کروڑ لوگوں کی قسمت کو پانچواں اور چھٹا چاند کب لگے گا؟‘‘ ’’بڑی بدنصیب قوم ہو تم لوگ۔‘‘ مبارک باد دینے والا شخص غصےسے سامنے پڑی ہوئی ہر چیز کولاتیں مارتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ اس کا ہوش ٹھکانے تب آیا جب اس نے ٹوٹی پھوٹی پرانی لوہے کی زنگ آلود کرسی کو لات ماری اور زخمی ہو جانے کے بعد لڑکھڑاتے ہوئے ہم منصبوں کو چھبیسویں آئینی ترمیم کی مبارک بادیں دیتا رہا اور پچیس کروڑ لوگوں کی قسمت کو چار چاند لگاتا رہا۔

دیکھا دیکھی ہم فقیروں نے بھی ستائیسویں اور اٹھائیسویں آئینی ترمیموں کی کچھ تجاویز تیار کرکے رکھی ہیں۔ تمام کی تمام تجاویز میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں۔ آپ ان تجاویز میں کچھ تبدیلی ، کچھ کاٹ چھانٹ یا کچھ اضافہ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ ہم آپ کی آرا کو سر آنکھوں پر رکھیں گے۔ آپ کچھ تجاویز سن لیجئے۔
ایم این ایز اور ایم پی اوز کو فائر اور ہائر کرنےکا قصہ آپ فقیر کے کسی کالم میں پڑھ چکے ہیں۔ ہائر اور فائر کرنے کی بات فقیر نے اس لیے لکھی تھی کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز ایک طرح کے سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔ ان کو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے، سرکاری رہائش ملتی ہے، آنے جانے کیلئے سفری الاؤنس ملتا ہے، ڈیلی الاؤنس ملتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر سرکار نے ان کو حیران کن مراعات اور رعایات دی ہوئی ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میں اگر وہ خاموش بیٹھے رہیں، جمائیاں لیتے رہیں، اونگھتے رہیں، ان کی سرزش نہیں ہوگی۔ قانون ساز اسمبلی میں بیٹھے بیٹھے بور ہو جائیں تو اٹھ کر اسمبلی سے باہر چلے جائیں، سگریٹ کے کش لگائیں، کیفےٹیریا میں ٹھٹھے مارتے رہیں۔ سینڈوچ اور چکن تندوری کھاتے رہیں۔ ان سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ اجلاس کے دوران اپنے جیسوں کے ساتھ گپیں مارتے رہیں۔ کیمروں میں دوسروں کی تقریروں کے دوران ہنستے بولتے رہیں، کوئی ان کو خاموش رہنے کا نہیں کہہ سکتا۔ اس نوعیت کی چھوٹ پورے ملک کے کسی سرکاری ملازم کو نہیں ملتی۔

یہ جو چھبیسویں ترمیم آئین میں ہوئی ہےاس سے ظاہر ہو گیا ہے کہ پچیس کروڑ آبادی میں ملک کے اعلیٰ ترین پڑھے لکھے اور ذہین چھ سات سو لوگ ہیں جو اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں۔ وہ اتنے لائق فائق ہیں کہ اعلیٰ ترین عدالت کا چیف جسٹس لگا سکتے ہیں۔ اب تو شاید اعلیٰ ترین سائنسدان بھی اسمبلی کے ممبر صاحبان چنیں گے۔ یونیورسٹیز کے وائس چانسلر بھی ایم این ایز چنیں گے۔ آرٹس، سائنس اور ٹیکنالوجی کے پروفیسر بھی اسمبلی ممبران منتخب کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ بری، بحری اور ہوائی افواج کے سربراہان کاانتخاب بھی اسمبلی کے پڑھے لکھے لائق اور فائق ممبران کریں، واللہ اعلم بالصواب ۔ پاکستان کے پچیس کروڑ لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ گنتی کے لائق اور فائق اسمبلی ممبران کااحترام کریں۔

دیکھیے نا کہ کس قدر خیروخوبی سے یہ لوگ ملک چلا رہے ہیں۔ ملک میں امن و امان کی مثالی صورت حال ہے۔ ایسی اعلیٰ صورت حال کیلئے ہمارے دوست اور دشمن ممالک ترستے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ اچانک غائب نہیں ہو جاتے۔ کسی قسم کی چھینا جھپٹی نہیں ہوتی۔ اقربا پروری نہیں ہوتی۔ میرٹ کوہرحال میں مقدم مانا جاتا ہے۔ عدل و انصاف میں ہم نے کئی ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ستائیسویں اور اٹھائیسویں آئینی ترمیموں کیلئے فقیروں نے عاجزانہ گزارش کی ہے کہ سرکاری ملازم ہونے کے ناتے اسمبلی ممبران میں چپ چاپ بیٹھے رہنے والوں، جمائیاں لینے والوں، اخروٹ اور چلغوزے کھانے والوں اور اچانک اسمبلی اجلاس سے اٹھ کر باہر جاکر سگریٹ کے کش لگانے اور کیفےٹیریا میں مرغ مسلم کھانے والوں سے تھوڑی بہت پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔ ایسے ممبران اپنے اپنے حلقوں میں جاکر اگر کبھی لوگوں کے دکھ درد میں شریک نہیں ہوئے، تو پھر ووٹ دینے والے فقیروں کوبھی یہ قانونی حق ملنا چاہئے کہ اپنا ووٹ واپس لے کر من موجی ممبران کو ممبرشپ سے فارغ کردیں۔

یاد رہے کہ ایم این اے اور ایم پی اے اپنی مرضی سے اسمبلی میں جا کر نہیں بیٹھتے۔ وہ لوگ ہم فقیروں کے ووٹ سے اسمبلی کے ممبر بنتے ہیں تاکہ قانون سازی کر سکیں۔

(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

loading...