فطرت دعا اور کن فیکون
- تحریر مختار چوہدری
- بدھ 30 / اکتوبر / 2024
فطرت کیا ہے؟ میرے پاس علم تو نہیں البتہ میرا خیال ہے کہ فطرت اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کیونکہ مالک کائنات نے کائنات بنا کر اس کے کچھ اصول بھی وضع کر دئیے۔ اور اپنی مخلوق کو ضرورت کے مطابق علم بھی دے دیا۔
ہر جاندار کی ضرورت کے مطابق اس کا رزق بھی اس کائنات کے اندر رکھا ہوگا، اسی لیے گدھے کو بھی علم ہے کہ گھاس اس کی خوراک ہے اور اس نے زمین سے گھاس چرنی ہے۔ کیڑے دانے تک کا راستہ خود تلاش کر لیتے ہیں اور موسم کا خیال رکھتے ہوئے کچھ جمع بھی کرتے ہیں۔ پرندے بھی صبح اپنے ٹھکانوں سے نکل کر اپنے پیٹ بھرنے کے لیے کچھ اڑان بھرتے ہیں اور شام کو واپس اپنے اپنے پیڑ پر جمع ہو کر اپنے دن کی ساری روداد ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔
آوارہ کتے بھی قصاب کے قریب ڈیرے ڈال لیتے ہیں یا گھروں کے قریب جا کر دیکھتے ہیں اگر ہم اپنے گھر کے باہر بچا کھچا کھانا یا ہڈیاں رکھیں تو کئی کتے اور بلیاں روٹین میں گھر کے باہر آ کر کھا لیتے ہیں۔ کوے اور کئی دوسرے پرندے اس وقت ہمارے گھروں میں آتے ہیں جب ہم باہر بیٹھ کر کھانا کھانے لگتے ہیں اور اگر ہم پرندوں کے لیے کچھ خوراک اپنی بالکونی میں رکھنا شروع کر دیں تو وہ پرندے روزانہ اپنے وقت پر آ جاتے ہیں۔ اسی طرح جنگل کے جانور، پانی کی مخلوقات سب اپنی روزی کا علم رکھتے ہیں اپنے ٹھکانے رکھتے ہیں اور اپنی محفوظ پناہ گاہیں بناتے ہیں اور کسی ظالم کے مقابلے کے لیے اتحاد و اتفاق سے مقابلہ بھی کرتے ہیں۔
یہ سب بے زبان جانداروں کی بات ہو رہی ہے جو اللہ سے مطالبہ بھی کر سکتے ہیں کہ اے ہمارے مالک ہم بے زبان اور لاعلم جانور ہیں، ہمیں اپنی اپنی جگہوں پر روزی فراہم کی جائے۔ لیکن نہیں موسم سرما میں سائبیریا سے پرندے ہزاروں میل کا سفر کر کے برصغیر کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور گرمیوں کا آغاز ہونے سے پہلے ہی واپسی کا رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہیں جنہوں نے اپنے دماغ سے کام لیا اور غاروں سے نکل کر ٹیکنالوجی کے سفر تک اور اب مصنوعی ذہانت سے کام لینے تک تمام مراحل بآسانی طے کر لیے۔ جاپان ایٹمی حملوں کی تباہی سے نکل کر دنیا کا بڑا صنعتی ملک بن چکا ہے۔ چین نے اپنی ذہانت اور محنت سے نہ صرف ٹیکنالوجی میں دنیا پر دھاک بٹھائی ہے بلکہ اپنے ملک سے غربت کا خاتمہ بھی کر دکھایا ہے۔
لیکن ہم پاکستانی ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائے کہ کیا ہر کام اللہ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے یا کچھ انسانوں کی ذمہ داری بھی ہے۔ کیونکہ ہر بندہ کچھ کیے بغیر ہی اللہ تعالیٰ سے رزق کی کشادگی، اچھی صحت، اعلی مقام اور آخرت میں بھی بلند درجات چاہتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں نے اپنی محنت اور درست سمت پر چل کر ثابت کر دیا ہے کہ انسان بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے لوگ کشمیر اور فلسطین کی آزادی سے لے کر اپنے ملکی حالات ٹھیک کرنے تک کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو فطرت کے اصولوں کا علم بھی دے رکھا ہے اور ہزاروں ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے سیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دریاؤں اور نالوں کے بہنے کا ایک رخ ہوتا ہے اگر ہم سب مل کر دعائیں کریں کہ اے اللہ ہمارے دریا یا نالے کو شمال کی طرف بہا دے تو ایسا نہیں ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کن فیکون ہی تو کرنا ہوتا ہے جس پر سب کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن اللہ ایسا نہیں کرے گا۔ آپ چاول کی فصل لگا کر گندم کی دعا کریں یا مکئی بیج کر چاول کی دعا کریں آپ کی دعا کبھی قبول نہیں ہوگی۔ آپ بغیر شادی کیے اولاد مانگیں تو اولاد ملنا ممکن نہیں ہوگا۔ آپ اپنی بکریوں کو شیروں کی کچھاڑ میں چھوڑ کر اللہ سے دعا کریں کہ میری بکریوں کو محفوظ رکھنا۔ مگر آپ کی ساری بکریاں سلامت نہیں رہیں
گی۔
کیونکہ فطرت اور قدرت کا اپنا نظام ہے۔ اگر آپ اس دنیا میں کامیابی چاہتے ہیں تو نظام فطرت کے مطابق محنت کریں تو آپ نہ صرف دنیا میں کامیاب ہوں گے بلکہ آخرت میں بھی سرخرو ہو جائیں گے۔ ہمارے لوگ اللہ کے خفیہ رازوں پر یقین رکھتے ہیں مگر اس کے فرمودات کو فراموش کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ کسی انسان نے کب مرنا ہے یہ راز اللہ کے پاس ہے مگر اپنی زندگی کی حفاظت کرنے اور اپنی صحت کا خیال رکھنے کا حکم ہے۔ لہذا ہم یہ کہہ کر کہ موت کا دن متعین ہے، اپنی صحت سے غفلت کریں یا خود کشی کریں تو یہ ہماری اپنی غلطی ہوگی۔
میرا خیال ہے کہ فطرت دعا سے نہیں بدلتی اور عمل کے بغیر کسی غائبی مدد کا انتظار حماقت کے سوا کچھ نہیں۔