سپریم کورٹ کے 23ججوں کا تنازعہ
- تحریر سید مجاہد علی
- بدھ 30 / اکتوبر / 2024
یوں تو جس ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں ہزاروں مقدمات پر سال ہا سال سے فیصلے نہ ہو پارہے ہوں، وہاں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ مقبول اور مستحسن اقدام سمجھا جانا چاہئے۔ پاکستان البتہ ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں کسی بھی معاملے کا کوئی متفقہ مثبت پہلو نہیں دیکھا جاتا۔ ہر حکومتی فیصلہ میں کوئی ’بدنیتی‘ تلاش کی جاتی ہے اور ہر مخالفانہ رائے ’ملک دشمنی‘ کہلاتی ہے۔
اسی لیے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 23 کردینے کی خبروں پر بھی نکتہ چینی اورتنقید کا مشاہدہ باعث حیرت نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ اس حوالے سے یہ پہلو باعث تشویش ضرور ہے کہ اس قسم کی کج بحثی اور بیان بازی صرف سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہی دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ رائے تیار کرنے اور عوام کی رہنمائی کا دعوے دار میڈیا بھی ایک فریق کے طور پر سامنے آیا ہے۔ حالانکہ میڈیا کی رپورٹنگ یا تبصرہ نگاری میں کسی بھی معاملہ پر اصولی مباحث اور ان میں سیاسی جھکاؤ تو قابل فہم ہوسکتا ہے لیکن سماجی ضرورت کے ایک اہم فیصلہ کو عدلیہ کی ’آزادی و خود مختاری‘ سے منسلسک کرکے تجزیے دینے اور گمراہی پھیلانے کا طریقہ افسوسناک اور کم ظرفی کی علامت ہے۔ چھبیویں آئینی ترمیم کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی ، سیاسی فریقین میں مفاہمت اور دو تہائی اکثریت سے ہونے والے اقدام کو مستقبل میں بہتر سیاسی امکانات کے حوالے سے دیکھنے کی بجائے، اسے سازش، عدلیہ پر حملہ اور ایک سیاسی ٹولے کی خود سری کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں عام ہیں۔ اب اس خبر پر بھی ایسے ہی تبصرے سننے اور دیکھنے میں آرہے ہیں کہ حکومت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد23 کرنا چاہتی ہے۔ اس فیصلہ کو بھی 26 ویں آئینی ترمیم کی طرح عدلیہ کی خود مختاری پر ’حملہ‘ کہنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
یہ تو مانا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت متنازعہ ہے۔ فروری میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں اختلافات موجود ہیں اور ایک سیاسی گروہ مسلسل الزام تراشی کرتا آرہا ہے۔ یا یہ کہ حکومت وسیع تر سیاسی تعاون کے لیے تحریک انصاف کو سہولتیں دینے اور اس کے لیڈر عمران خان کو رہا کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی حالانکہ عمران خان کی حراست قانونی کی بجائے شاید سیاسی معاملہ ہے۔ البتہ یہ باور کرنا ممکن نہیں ہے کہ ایسے سیاسی اختلافات کو پارلیمنٹ کو بااختیار کرنے اور ملک کے طاقت ور اداروں میں احتساب کا ارادہ کرنے کو کیسے خالصتاً ایک گروہ کے فائدے کے لیے کیا جانے والا سیاسی اقدام کہا جاسکتا ہے۔ اول تو یہ کہنا کہ چھبیسویں ترمیم متفقہ نہیں تھی محض تکنیکی معاملہ ہے۔ تحریک انصاف اس ترمیم کے پورے پارلیمانی عمل میں شامل ہوئی اور سیاسی مکالمہ میں حصہ لے کر ایسے نکات کو ابتدائی مسودہ سے نکلوانے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کیا گیا جن کے بارے میں قیاس تھا کہ ان سے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔ ان میں خاص طور سے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات چلانے کا نکتہ بھی شامل تھا۔ حکومت کا تیار کردہ اصل مسودہ چونکہ عوامی مشاہدے کے لیے پیش نہیں کیا گیا تھا ، اس لیے یہ محض قیاس آرائیاں ہیں کہ شہباز شریف کی حکومت کس حد تک ملک پر ’استبددادیت‘ مسلط کرنا چاہتی تھی اور کیسے وزیر اعظم بنفس نفیس اعلیٰ عدالتوں کو کنٹرول کرنے کا اختیار حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ البتہ 26 ویں ترمیم کے ذریعے جو 22 نکات آئین کا حصہ بنائے گئے ہیں، انہیں ہر شخص پڑھ سکتا ہے اور ان کے بارے حجت و دلیل کی بنیاد پر رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔
تاہم کسی ترمیمی نکتہ کا حوالہ دے کر یہ قرار دینا کہ یہ عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ ہے۔ ایک ’سویپینگ سٹیٹمنٹ‘ تو ہوسکتی ہے لیکن دلیل کی بنیاد پر سامنے لایا جانے والا نقطہ نظر نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ یہ کہنا زیادہ متوازن اور محتاط ہوگا کہ اس ترمیم کے ذریعے عدالت عظمی اور پارلیمنٹ کے درمیان طاقت کا عدم توازن ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کوشش ناقص ہوسکتی ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس ترمیم کے درپردہ حکمران جماعتیں کچھ گروہی سیاسی مفادات حاصل کرنے کی خواہاں ہوں۔ یا بعض ججوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی ہو۔ جیسے کہ عام طور سے کہا جارہا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کو سینارٹی کے باوجود چیف جسٹس نہیں بنایا گیا کیوں کہ حکومت انہیں اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ اس حوالے سے پہلے تو یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ سینارٹی میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کو اس عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ اور کسی جج نے اس نامزدگی پر کوئی احتجاج نوٹ نہیں کرایا۔ حتیٰ کہ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی کسی بدگمانی کا اظہار نہیں کیا حالانکہ وہ ایک خط میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرچکے تھے۔ اگر وہ واقعی اس فیصلہ کو اپنے خلاف ناانصافی یا عدالت عظمی کی خود مختاری پر حملہ تصور کرتے تو وہ رجسٹرار کو ایسا ہی ایک خط جسٹس یحییٰ آفریدی کے بارے میں بھی لکھ سکتے تھے۔
اس معاملہ کا یہ پہلو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب قانونی طور سے یہ طے ہوگیا کہ سب سے سینئر تین ججوں میں سے کوئی ایک چیف جسٹس مقرر ہوگا تو اس عمل میں وہ تینوں جج مساوی رتبے کے حامل تصور کیے جائیں گے۔ قانون کہتا ہے کہ ان تینوں کو یکساں طور سے چیف جسٹس کے عہدے کا حقدار سمجھا جائے گا البتہ چونکہ ایک وقت میں تین چیف جسٹس نہیں ہوسکتے بلکہ عملی طور سے پارلیمانی کمیٹی کو تین میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا ، اس لیے تینوں میں سے جس کا نام بھی چن لیا جائے ، وہ شخص مساوی طور سے اس عہدے کا اہل اور حقدار سمجھا جائے گا۔ اس کا یہ مقصد بھی ہرگز نہیں ہے کہ جن ناموں پر اتفاق نہیں ہؤا، وہ اس عہدے کے اہل نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف جسٹس منصور علی شاہ یا جسٹس منیب اختر نے کسی ناراضی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان دونوں نے یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفے بھی نہیں دئے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی ان سے ’کمتر یا کم اہل ‘ تھے۔ بلکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی اس فیصلہ کو ماننے میں کسی پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔ ورنہ ان جیسے اصول پسند جج سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اگر اپنی نامزدگی کو اصولی یا اخلاقی طور سے درست نہ سمجھتے تو وہ آئینی ترمیم کے باوجود یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیتے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا معیار ملک میں جاری سیاسی تنازعہ کی وجہ سے نمایاں ہؤا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کو تحریک انصاف نے جسٹس (ر) قاضی فائز عیسیٰ کی ضد میں ہیرو بنا کر پیش کیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ان کے آنے سے سپریم کورٹ میں انصاف کا بول بالا ہوسکے گا اور اسی لیے حکومت انہیں اس عہدہ پر فائز نہیں کرنا چاہتی۔ ججوں کی ذات اور فیصلوں کے بارے میں ایسی سیاسی مہم جوئی ہی درحقیقت ملک میں انصاف کا معیار کم کرنے اور عدالتوں کے بارے میں منفی رائے مرتب کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ ورنہ عدالت عظمی تک پہنچنے والا ہر جج یکساں طور سے قانون کا ماہر ہوتا ہے اور اس کی ذاتی دیانت و صداقت کے بارے میں کوئی شبہ موجود نہیں ہونا چاہئے۔ سائلین کی حد تک عملی طور سے بھی اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون چیف جسٹس بنتا ہے کیوں کہ سپریم کورٹ کے اکثر فیصلے کئی کئی ججوں پر مشتمل بنچ کرتے ہیں۔ بنچ میں شامل ہر جج کا ایک ہی ووٹ ہوتا ہے اور ہر جج کی انفرادی رائے کی اپنی قانونی اہمیت ہوتی ہے۔ البتہ فیصلے کثرت رائے کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں چیف جسٹس کا بھی ایک ہی ووٹ ہوتا ہے اور اگر وہ اقلیتی ججوں میں شامل ہوں تو ان کی رائے فیصلہ پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ جیسا کہ مخصوص نشستوں کے بارے میں تیرہ رکنی بنچ میں شامل موجودہ اور سابق چیف جسٹس نے اکثریتی فیصلہ سے اتفاق نہیں کیا تھا لیکن اکژیتی آٹھ ججوں کا حکم ہی عدالتی فیصلہ مانا جائے گا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نفاذ کے بعد تو اب چیف جسٹس کو تن تنہا بنچ بنانے کا اختیار بھی حاصل نہیں ہے بلکہ ججوں کی سہ رکنی کمیٹی اس پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ جس میں چیف جسٹس کا صرف ایک ووٹ ہوتا ہے۔ اس لیے عدالت عظمی کے ججوں کی تعداد میں اضافہ کی خبروں کو ججوں میں گروہ بندی اور تقسیم کے مقصد سے استعمال کرنا درحقیقت عدلیہ پر اثر انداز ہونے کا طریقہ کہلائے گا۔ سپریم کورٹ میں اس وقت 55 ہزار سے زیادہ مقدمے فیصلوں کا انتظار کررہے ہیں۔ اسی لیے جولائی میں صدر مملکت نے دو ایڈہاک جج مقرر کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔ اب سپریم کورٹ میں اگر مزید پانچ جج شامل ہوں گے تو ا نہیں کسی ایک پارٹی کے ’نمائیندے‘ قرار دے کر عدالت عظمی کے وقار اور ممکنہ نئے ججوں کی دیانت پر سوالیہ نشان لگانے کی کوئی بھی کوشش ناقابل قبول اور افسوسناک ہوگی۔
26ویں ترمیم کے ذرریعے پارلیمنٹ کو چیف جسٹس کی تقرری کا حق دینااور جوڈیشل کمیشن میں سیاسی نمائیندگی ایک خوش آئیند اقدام ہے۔ سیاسی اختلافات کی وجہ سے پارلیمنٹ کے بارے میں خواہ کیسے ہی خیالات کا اظہار کیا جاتا رہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پارلیمنٹ ہی آئینی و اخلاقی لحاظ سے ملک کا سب سے طاقت ور اور فیصلے کرنے کا مجاز ادارہ ہے۔ اس ادارے کے ذریعے ہونے والا کوئی بھی فیصلہ عوامی فیصلہ کہلائے گا کیوں کہ پارلیمنٹ کے ارکان منتخب ہوکر اس ذی مرتبت ایوان تک پہنچتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی عدالت کو پارلیمنٹ کے حق قانون سازی پر قدغن عائد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
ماضی قریب میں اس حوالے سے سپریم کورٹ کا کردار متنازعہ اور افسوسناک رہا ہے۔ 26 ویں ترمیم اس تنازعہ کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ پارلیمنٹ کو طاقت ور بنانے والا کوئی بھی قانون یا فیصلہ ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کی طرف ایک قدم سمجھا جانا چاہئے۔