دو زمانوں کے درمیان

شگفتہ شاہ نے اپنے قلم کی شاہانہ شگفتگی سے لسانی ثقافتوں کے درمیان جو پل تعمیر کیا ہے، اس کی سیر دیدنی ہے۔ پل کے دو رویہ کنوت ہامسن جیسا فن کے برگد جیسا شاہ کار شجر ہے ۔ اور ان کے اطراف میں دونوں طرف الیگزینڈر شی لاند، ہورلسن ، امالیے سکرام، راگسل بیولسن ، اوسکر بروکسی، آرتھر عمرے اور فردتج جیسے سخن ور ہیں۔

مترجم  نے اپنے بیان میں جسے وہ عرض مترجم کا عنوان دیتی ہیں، فرماتی ہیں کہ بین الاقوامی ادب سے شناسائی کیلئے سب سے موثر ذریعہ تراجم ہیں۔ بالکل درست لیکن یہ معاملہ صرف ادب تک ہی محدود نہیں بلکہ ترجمہ ہر صورتحال، ہر وجودی کیفیت اور ہر ابلاغی معاملے، یہاں تک کہ دو طرفہ گفتگو میں بھی اپنا کردار رکھتا ہے۔
یعنی کہنے والا اور سننے والا دونوں یکساں صلاحیتوں کے حامل نہیں ہوتے اور سننے والا کہنے والے کے مکالمات اور اپنی عقل کے مطابق ترجمہ کر رہا ہوتا ہے۔ یہ کیفیت انفرادی گفتگو سے لے کر اجتماعی واعظ و تقاریر تک ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ لیکن ادبی تراجم کا معاملہ الگ ہے کہ ایک تو قارئین کی مارکیٹ کو پیش نظر رکھتا پڑتا ہے اور دوسرے یہ مترجم پر منحصر ہے کہ وہ کون سے تحریری مواد کو لائق ترجمہ سمجھتا ہے۔ اس معاملے میں نارویجین ادب میں سے جو ہیرے چن کر شگفتہ شاہ نے اردو میں منتقل کیے ہیں وہ ان کی ادب شناسی کے گواہ ہیں ۔ شگفتہ شاہ کی اردو سہل اور خوبصورت ہے اور ہر جملہ اور ہر پیراگراف پوری طرح اپنی قوت ابلاغ کا ثبوت بن جاتا ہے۔
یہ میری بدقسمتی ہے کہ میں پوری کتاب کا مطالعہ نہیں کر پایا کیونکہ مجھے پی ڈی ایف فائل واٹس ایپ پر ملی جو اگلے دن ڈیلیٹ ہو گئی۔ کیونکہ موبائل پر متن کو پڑھنا میرے لیے ممکن نہیں تھا، کیونکہ اکیاسی سالہ آنکھیں موبائل کی بھول بھلیوں میں کھو جاتی ہیں۔ تاہم میں صرف کنوت ہامسن کی کہانیاں پڑھ پایا ہوں۔

ہامسن اپنے عہد کا درویش سیرت مصنف ہے جس کی زندگی کا موازنہ ساغر صدیقی اور حبیب جالب کی زندگی سے کر سکتا ہوں۔ کردار مجھے بالکل جانے پہچانے سے لگتے ہیں اور کبھی مجھے ہامسن میں عدم ہاشمی نظر آتا ہے اور کبھی اقبال ساجد۔
ہامسن کے ایک سوانح نگار انگار سلیتھ کولوئن کی کتاب پورے پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ میں لاہور یا کراچی میں ہوں۔ اور میں شگفتہ شاہ کے تراجم کا شکر گزار ہوں کہ مجھے وہ کہانیاں پڑھنے کو ملیں جن کو میرے نسیان  نے محو کر دیا تھا۔
موبائل پر مطالعہ نئی نسل کیلئے سہل اور مجھ ایسوں کیلئے آزمائش ہے کیونکہ ہم کتابوں کے ماحول میں پلے ہیں اور کتاب سے رشتہ اپنے دوستوں اور محبوبوں جیسا ہوتا ہے کہ کتاب گود میں رکھیں یا دونوں ہاتھوں کے درمیان، وہ احساس دلاتی ہے کہ کوئی آپ کے ساتھ ہے۔ اگر کبھی کتاب میسر آئی تو پھر ان تراجم پر ایک بھرپور مضمون لکھوں گا۔ انشا اللہ

(یہ مضمون شگفتہ شاہ کے تراجم کی پذیرائی کے لیے منعقد ہونے والی ایک نجی تقریب میں پڑھا گیا)