مجاہد برسر پیکار
- تحریر مسعود مُنّور
- سوموار 02 / دسمبر / 2024
ن والقلم و ما یسطرون ۔ ن قلم کی قسم اور جو اہل قلم لکھتے ہیں، ان کی قسم:
لکھتے رہے وطن سے جدائی کی داستان
الواح دل پہ جس نے رقم کیں محبتیں
کون ہے وہ اہل قلم جس کا فی الوقت تذکرہ ہے ۔ سید مجاہد علی۔
سید مجاہد علی سے میری پہلی ملاقات لگ بھگ چالیس برس ادھر، اوسلو میں بگڈوئے ایلے پر ایک ہوٹل میں ہوئی جہاں مجھ مہاجر کو ٹھہرایا گیا تھا۔ انہیں سعید انجم ساتھ لے کر مجھ سے ملوانے اور متعارف کروانے آئے تھے۔ ان سے پہلی ملاقات کی تمازت میں آج بھی محسوس کر رہا ہوں کیونکہ مجھے لگا تھا کہ سعید انجم سورج کو اپنے ساتھ لے کر میرے کمرے میں براجمان ہوئے تھے۔ ملاقات میں شدت اور حدت تھی۔
ان کے رخصت ہو جانے کے بعد میں دیر تک ان کا زائچہ بنا کر انہیں دریافت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ چونکہ ان کی تاریخ پیدائش سے واقف نہیں تھا، اس لیے میں نام کے حروف پر تکیہ کیا جو تعداد میں پانچ ہیں۔ پانچ کا عدد حواس خمسہ کی علامتی رقم ہے اور ان کے پانچ ارکان کا کنایہ ہے ۔ فلکیات میں 5 کا عدد علامتی اعتبار سے مرکزی یعنی عطارد کا نمبر ہے جو سورج سے قریب ترین ہے۔ مرکری کا نمبر سیمابی نمبر ہے اور نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور سیمابی ماہیت کا مظہر ہے۔
نمبر 5 کے لوگ دست دوستی دراز کرنے میں بڑے فیاض ہوتے ہیں اور ہر سیارے کے اثرات کے حامل لوگوں سے باآسانی گھل مل جاتے ہیں۔ مگر ان کے حقیقی دوست وہی ہوتے ہیں جو ان کے ہم نمبر ہوں۔ نمبر 5 افراد ذہنی کشیدگی کے اثرات آسانی سے قبول کرتے ہیں تاہم ان کو پرجوش اور فعال رہنے کی صلاحیت ملی ہوتی ہے۔ وہ تیزی سے سوچنے اور فوری فیصلے کرتے ہیں اور ان کے عملی اقدامات میں بھی وہی جوش و خروش ہوتا ہے۔
وہ اپنے نادر اور گونا گوں منصوبوں سے بڑی آسانی سے رزق تقسیم کرنے والے فرشتے سے رابطے میں رہتے ہیں تاہم وہ کسی قسم کا رسک لینے میں پس و پیش یا تعامل نہیں کرتے۔ مجاہد علی سید یا سید مجاہد علی دونوں آمنے سامنے ہیں اور سید مجاہد علی کا نظریہ صحافت ان کی کتاب ’’میڈیا برسر پیکار‘‘ کے پیش لفظ میں پوری تفصیلات کے ساتھ رقم ہے۔ اور میں نے صحافت کے اساتذہ سے بھی ایسی نظریاتی گفتگو نہیں سنی جو انہوں نے اپنے کالموں اور صحافتی نوشتوں میں پیش کی ہے۔
مجاہد علی کے کاروان سے میرا کئی سالوں تک رابطہ رہا ہے۔ اور کاروان کے قارئین کے لیے میرا ہفتہ وار کالم بطیحا کوئی ڈھکا چھپا بیانیہ نہیں رہا ۔ میں نے مجاہد کو صحافت کے اس سفر میں کڑی آزمائشوں سے گزرتے دیکھا ہے۔ مجھے وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا جب مجاہد علی ٹریفک کے ایک حادثے میں اپنی ممتا کی الوہی دولت سے محروم ہو گئے تھے۔ یہ مقدر کا لکھا تھا اور مقدر پر ایمان، ایمانیات کا بنیادی رکن ہے۔ مجاہد علی کارکنان قضا و قدر کے معاون بھی ہیں اور انہوں نے اپنا نامہ اعمال مزین کر کے کئی جلدوں میں چھاپ دیا ہے تاکہ داور حشر کے سامنے سخت سوالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مجاہد علی جو ہیں، وہ اپنے نوشتوں ، مضامین اور اداریوں میں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اور اس دیار غیر کو ہم وطنوں کیلئے مانوس اور سہل بنانے میں وہ نظریات بہت کارگر ہیں جنہوں نے ناروے میں ایک منی پاکستان قائم کر دیا ہے اور جہاں ہم پاکستانی نژادوں کو اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ سید مجاہد علی آپ کا بہت شکریہ۔ تہنیت کے طور پر چند اشعار آپ کی نذر ہیں:
ہم صحافی ہیں کہاں ہم نے لفافت کی ہے
والقلم پڑھ کے سدا برپا قیامت کی ہے
ہم سے بیچی نہ گئی جنس خوشامد واللہ
ہم نے کب لفظ و معانی کی تجارت کی ہے
کوے کو ہنس جو لکھتے تھے وہ ہم میں سے نہ تھے
ہم نے ہر کہنہ روایت سے بغاوت کی ہے
ان گنت خوابوں کی کرنوں سے سجائے در و بام
ہم نے ہر شام ستاروں کی اشاعت کی ہے
عشق کے دشت میں مجنوں سے سنے ہیں خطبے
اور اناالحق کی مساجد میں امامت کی ہے
جو بھی لکھا ہے وہ مولا کی عطا سے لکھا
ہم نے تجدید مواخات و صداقت کی ہے
ہم مجاہد ہیں مجاہد ہی رہیں گے مسعود
ہم نے ہر قافلہ دل کی قیادت کی ہے
(ممتاز شاعر اور دانشور جناب مسعود منور نے یہ مضمون 30 نومبر 2024 کو اوسلو میں مدیر کاروان سید مجاہد علی کے اداریوں کے مجموعے ’امانتیں کئی سال کی‘ کی تقریب پزیرائی میں پڑھا۔ اس تقریب کا اہتمام حلقہ ارباب ذوق ناروے نے کیا تھا)