دریائے تھیمس اور مشہور نظمیں
- تحریر فہیم اختر
- بدھ 18 / دسمبر / 2024
یوں تو لندن میں رہتے ہوئے تیس برس سے زیادہ ہوگئے مگر اب تک ہم لندن کو نہ پوری طرجان پائے اور نہ گھوم پائے ہیں۔ خیر روزگار کی تگ و دومیں 1993میں جب لندن آیا تو کئی جگہوں کی سیر کی۔ جس جگہ بھی گیا ایک نئی تازگی کا احساس ہوا اور معلومات میں اضافہ ہوا۔
شروع سے ہی ہماری یہ کوشش رہی کہ ہم اپنے کالم کے ذریعہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو قارئین تک پہنچائیں۔ یہ سلسلہ تقریباً بارہ سال سے جاری ہے۔پچھلے ہی دنوں دریائے تھیمس کے قریب جانے کا موقعہ ملا۔ خوب مزہ آیا، دریائے تھیمس اپنی مستی میں رواں دواں تھا۔ ہلکی ہلکی سرد ہواؤں کے تھپیڑے دیکھنے سیر کرنے والوں کے گالوں کو اس طرح چھو کر گزر تے کہ وہ سرخ ہوجاتے۔ دنیا میں بہت ساری مشہور ندیاں ہیں جن کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ دریائے نیل، جو دنیا کی سب سے لمبی ندی ہے اور جو شمال مشرقی افریقہ میں واقع ہے۔ یہ ندی 6650 کلو میٹر لمبی ہے اور اس کا منبع یوگانڈا، کینیا اور تنزانیہ میں ہے۔ اسی طرح سے دریائے ایمیزون جنوبی امریکہ کی سب سے بڑی ندی ہے۔ چین کی یانگزے بھی اہم ندی ہے۔ اور امریکہ کی میسیسیپی بھی مشہور ندیوں میں سے ایک ہے۔
دریائے تھیمس برطانیہ کا ایک مشہور دریاہے جو انگلینڈ کے جنوبی حصے میں بہتا ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 346کیلو میٹر ہے۔ دریائے تھمس لندن شہر کے درمیان سے بہتے ہوئے مشرقی سمت کی طرف رخ کرتاہے اور پھر شمالی سمندر میں جا ملتا ہے۔دریائے تھیمس کو برطانیہ کی تاریخ اور تہذیب میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔ یہ دریا رومی دور سے لے کر موجودہ دور تک اہم رہا ہے۔دریائے تھیمس پر بہت سارے مشہور پل ہیں جیسے کہ ٹاور برج، لندن برج، ویسٹ منسٹر برج، البرٹ برج، چیلسی برج وغیرہ۔ اس کے علاوہ دریائے تھیمس کے کنارے بہت سی مشہور عمارتیں بھی واقع ہیں جیسے کہ برطانوی پارلیمنٹ، بِگ بین، لندن آئی وغیرہ۔ دریائے تھیمس لندن اور اس کے اردگرد کے علاقوں کی اقتصادی، ثقافتی اور سماجی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ اس دریاکے کنارے بہت سے پارکس، سیاحتی مقامات اور تاریخی عمارتیں واقع ہیں جو اسے ایک اہم سیاحتی مقام بناتے ہیں۔
دریائے تھیمس کی تاریخ پر تحقیق کرتے ہوئے کئی باتوں کا علم ہوا، خاص کر تھیمس پر لکھی گئی نظموں سے کافی لطف اندوز ہوا۔ یوں تو دریائے تھیمس پر لکھی گئی شاعری کی ایک طویل اور شاندار تاریخ ہے۔ مشہور انگریزی شاعرآسکر وائلڈ نے تھیمس پر دو نظمیں لکھی تھیں۔ انہوں نے خوبصورتی کے ساتھ اپنی نظم میں لکھا کہ تھیمس ہمیشہ رنگوں کو ابھارتا ہے جس میں پیلا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید اپنی نظم میں لکھا کہ پیلے رنگ کی گھاس سے بھرے،بڑے بڑے سایہ دار گھاٹی کے ساتھ کھڑی ہیں اور پیلے ریشمی اسکارف کی طرح، گھنی دھند کھائی کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے۔ پیلے پتے مٹنے لگتے ہیں اور چرچ سے پھڑ پھڑاتے ہیں اور میرے قدموں میں ہلکی سبز تھیمس پھڑ پھڑاتی ہوئی ایک چھڑی کی طرح پڑی ہے۔
اسی طرح معروف شاعرروڈیارڈ کپلنگ کی "دی ریور ٹیل "بھی کافی مشہور نظم ہے۔ جس میں تھیمس کے ان 24پلوں کے بارے میں بتایا جو اسے اپنی تاریخ سے پہلے کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ زندگی ہم جنس پرست تھی،دنیا نئی تھی اور میں کیو علاقے میں ایک میل کے فاصلے پر تھا! لیکن رومن بھاری ہاتھ لے کر آئے اور پل باندھا اور سڑک بنا کر ملک پر حکومت کی،رومن چلے گئے اور ڈینز نے پھونک مار دی۔ اور یہیں سے تاریخ کی کتابیں شروع ہوتی ہیں۔ اسی طرح مشہور شاعر الفریڈ نوائس نے رات کے وقت تھیمس کے بارے میں لکھا ہے کہ،ایسا لگتا ہے کہ اس کے کناروں کوغریبوں اور بے گھرلوگوں نے گھیر لیا۔ اس کے اندر رنگ اور ہنسی، گرمی اور شراب تھی۔ اس کے بغیر، اندھیرا،بھوک، اور کڑی سردی تھی۔ جہاں گیلے پشتوں پر سفید گلاب چمک رہے تھے جو تھیمس کو سونے جیسا چمکا رہے تھے۔
دیائے تھیمس کے ٹھنڈ کے بارے میں بہت کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ جبکہ جان گی نے تھیمس کے ٹھنڈ کے بارے میں اس طرح بیان کیا تھا۔ جب سرد لہر کے ساتھ تھیمس کوتاج پہنایا گیا، تو ایسا لگ رہا تھا کہ برفیلے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تین لمبے چاند تھے۔ پانی والا، ساحل کے ساتھ لاوارث، فکر مند تکیہ لگائے بیٹھا ہے۔ اسی طرح بیسی رینر پارکس نے چھٹیاں منانے کے لئے تھیمس کو چنا۔ اور کہتا ہے کہ تھیمس کے کنارے بنائی گئی فیکٹری کبھی لڑکیوں کے لیے ایک مشہور مقام تھا۔ میں صرف لندن کے دور دراز، بیہوش ٹاورز۔ ہم اس ساٹن گاؤن کے ساتھ دوسری کلاس میں جائیں گے۔ دیکھو! ہم دریا کے کنارے بھاگتے ہیں۔ اس کی چھاتی پر آخری شعاعیں لرزتی ہیں۔ اوہ، کیا اپریل کی چھٹی ہے! اور سب آدھے تاج کے لیے! ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دیر ہورہی ہے، اور ہم شہر سے میلوں دور ہیں۔
معروف ادیب اور شاعرولیم ورڈزورتھ کے لیے یہ خاموشی اور غور و فکر کی جگہ تھی۔وہ اپنی نظم میں کہتے ہیں کہ کتنا پرسکون! اب بھی کیسے! صرف آواز، شام کی تاریکی چاروں طرف پھیل جاتی ہے۔ لیکن اپون ویسٹ منسٹر برج جو کہ 3ستمبر 1802میں لکھی گئی، زمین کے پاس اس سے زیادہ منصفانہ دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے: کیا وہ روح کا ہوگا جو گزر سکتا ہے؟ اس کی شان میں چھونے والا نظارہ: یہ شہر اب لباس کی طرح صبح کی خوبصورتی پہنتا ہے۔ خاموش ننگے، بحری جہاز، ٹاور، گنبد تھیٹر، اور مندر میدانوں اور آسمان تک کھلے پڑے ہیں۔ دھوئیں کے بغیر ہوا میں سب روشن اور چمکدار۔ سورج اپنی پہلی شان، وادی، چٹان یا پہاڑی میں اس سے زیادہ خوبصورتی سے کبھی نہیں چڑھا۔میں نے کبھی نہیں دیکھا، محسوس نہیں کیا، اتناگہرا سکون! دریا اپنی ہی پیاری مرضی سے سرکتا ہے: پیارے خدا! گھر سوئے ہوئے لگتے ہیں۔ اور وہ تمام طاقتور دل ابھی تک پڑا ہے!
حال ہی میں میرے کرم فرماؤں نے سوشل میڈیا سے ایک شعر مجھے بھیجا،جسے پڑھ کر خوشی سے زیادہ حیرانی ہوئی۔ دراصل شعر میں نیل کاگنگا سے ملن ہونے کی خواہش جتائی جارہی ہے۔ جو کہ ایک بڑی خوش آئیند بات ہے، یعنی دریائے نیل اگرمذکر ہے تو نیل مرد ہوگیا اور گنگا ندی موئنث ہے تو گنگا خاتون ہوگئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شعر کو لکھنے والی ایک خاتون ہیں۔ اگر لکھنے والی خاتون ہیں اور نیل سے خود کو تشبیہ دے رہی تو اب یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ نیل مذکر ہے، تو گنگا تو یہاں موئنث ہے۔جبکہ شعر میں خاتون نے اپنے محبوب کو مرد کی صورت میں پیش کیا ہے۔جس سے یہ گمان ہورہا ہے کہ کہیں نیل اور گنگا اپنی جنس کو تبدیل کر کے محبت کی نئی روایت کی داغ بیل تو نہیں ڈال رہے!آپ کی اطلاع کے لیے دنیا کی دو ہی ندیاں گنگا اور جمنا ایسی ہیں جو موئنث ہیں،باقی دنیا کے تما م دریا مذکر ہیں۔
آج ہم نے دریائے تھیمس اور چندمعروف انگریزی نظموں کے حوالے سے مختصر بات لکھ کر اپنے علم میں تو اضافہ کیا اور ساتھ ساتھ آپ کو بھی اس بات سے آگاہ کیا۔ اگر آپ لندن تشریف لائیں تو دریائے تھیمس کی ضرور سیر کریں اور اس کی خوبصورتی اور تاریخ سے خوب لطف اندوز ہوں۔