برطانیہ میں کرسمس کا تہوار اور تنہائی
- تحریر فہیم اختر
- منگل 24 / دسمبر / 2024
سال 2024کا یہ میرا آخری کالم ہے۔پچھلے بارہ برسوں میں ہر ہفتے، اب تک میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ میں ہر موضوع پر کالم لکھوں اور مجھے اس بات کا یقین بھی ہے کہ میرے کالم پڑھنے والوں کو ہر ہفتے ایک نئے مو ضوع کو جاننے اور پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔
میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ میرے مضامین کے ذریعہ لوگوں کے معلومات اور علم میں اضافہ ہوتا رہے اور اس کا ثبوت میرے چاہنے والوں کے فون، ای میل اور فیس بُک کے ذریعہ ان کے مفید مشورے اور حوصلہ افزائی سے ہوتا رہتا ہے۔آج میں نے سوچا کیوں نہ ہم آپ لوگوں سے برطانیہ میں کرسمس کے تہوار اور تنہائی کے موضوع پر گفتگو کریں۔میں سب سے پہلے لوگوں توکرسمس کے تہوار کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور آج اسی مو ضوع پر آپ کو بتائیں گے کہ برطانیہ میں کرسمس کے تہوار کیسے مناتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس موقع پر لگ بھگ چار ملین سے زیادہ لوگ تنہا ئی محسوس کرتے ہیں۔
برطانیہ میں کرسمس کا تہوار ایک نہایت اہم اور روایتی موقع ہے۔ جو خاندانی میل جول، خوشی اور تہوار کی رونقوں سے بھر پور ہوتا ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چراغوں، کرسمس ٹری، اور رنگ برنگی سجاوٹوں سے آراستہ کرتے ہیں۔ اس موقع پر بازار، گلیاں اور شاپنگ سینٹرز بھی روشنیوں اور میلے جیسا منظر پیش کرتے ہیں۔ لوگ تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں، کرسمس ڈنر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ لیکن اس سارے جوش و خروش کے باوجود، برطانیہ میں تنہائی کا احساس ایک حقیقت ہے۔ خاص طور پر ان افراد کے لیے جو اکیلے رہتے ہیں یا جن کے عزیز و اقارب قریب نہیں ہوتے یا وہ اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔
کرسمس کے دن پر بہت سے لوگ، خاص طور پر بزرگ، تنہائی کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ یہ وقت خاندان کے ساتھ منانے کا تصور کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنے خاندان یا دوستوں سے دور ہو تو اس دن تنہائی کا احساس اور گہرا ہوسکتا ہے۔اس کے ساتھ برطانیہ میں کئی چیریٹی تنظیمیں اور مقامی کمیونٹیز ایسے لوگوں کی مدد کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ مفت کھانے، اجتماعی تقریبات اور دیگر سرگرمیوں کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ کوئی بھی شخص اس دن تنہا نہ محسوس کرے۔ کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر بزرگ افراد یا بے گھر لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ ان کے لیے کھانے پکاتے ہیں یا انہیں گرمجوشی کے ساتھ کرسمس کی خوشیوں میں شامل کرتے ہیں۔یہ تضاد یعنی تہوار کی چمک دمک اور تنہائی کا گہرا سایہ کرسمس کے موسم کو جذباتی طور پر بہت پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
بی بی سی ریڈیو کے سروے کے مطابق برطانیہ میں لگ بھگ 28% فی صد لوگ کرسمس کے دن تنہا ہوتے ہیں۔ جن میں 7% فی صد نوجوان ہوتے ہیں اورلگ بھگ 10%فی صد عمر رسیدہ لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مرد ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی ہے۔ اس مطالعہ میں 28%فی صد لوگوں نے یہ بھی کہا کہ’وہ کرسمس میں بالکل تنہا ہوجاتے ہیں‘۔ وہیں 33%فی صد معمر لوگوں نے جدیدٹیکنالوجی کو الزام دیتے ہوئے کہا کہ ان کی تنہائی کا ایک سبب جدید ٹیکنالوجی ہے جس نے انہیں الگ تھلگ کر دیا ہے۔ جبکہ 85%فی صد لوگوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے جلنے اور آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کرنے کو ترجیح دی ہے۔ 65%فی صد لوگوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ انہیں کرسمس کے موقع پر تنہا رہنے والے رشتہ دار، دوست اور پڑوسیوں کی مدد کرنی چاہیے اور کرسمس کے موقعے پر ان سے ملنا جلناچاہیے۔
یوں توتنہائی کسی بھی عمر میں ہوسکتی ہے لیکن اس میں شدّت وقت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ لوگوں میں زیادہ ہو جاتی ہے۔کئی لوگوں نے اپنے اپنے طور پر اپنی تنہائی کو ایک خطرناک اور عجیب و غریب کیفیت بتایا ہے اور یہ بھی کہا کہ اس کی تلافی کرنا بے حد مشکل ہے۔ان میں کچھ لوگ اپنی بیماری، رشتہ داروں سے دوری، خاندان کا نہ ہونا، الگ تھلگ رہنے کی عادت،غربت وغیرہ جیسی وجوہات بتائی ہیں۔ایک مطالعہ کے مطابق تنہائی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مثلاً خراب صحت، ٹرانسپورٹ کی کمی، چلنے پھرنے میں دشواریاں، کم آمدنی،کسی قریبی رشتہ دار کا انتقال ہوجانا، بلا وجہ خوف کھانا اور ریٹائرمنٹ وغیرہ عام ہیں۔ لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ برطانیہ کے سماجی زندگی میں اتنی تبدیلی آگئی ہے کہ یہاں پڑوس میں رہنے والوں سے بمشکل ہی ملاقات ہوپاتی ہے۔بہت سارے لوگوں کا کہنا ہے کہ میری زندگی ہے کسی سے کیا لینا دینا لیکن پھر ان لوگوں کی زندگی پر افسوس ہوتا ہے جن سے نہ کوئی ملنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی بات چیت کرنے والا۔
ہر سال کرسمس کے موقع پر برطانیہ میں " مسٹر بین"ایک کامیڈی پروگرام دکھایا جاتا ہے جسے میں بھی شوق سے دیکھتا ہوں۔ اس پروگرام میں مسٹر بین اپنی تنہائی کو کتنی خوش اسلوبی سے دکھاتے ہیں جسے ہم سب دیکھ کر ہنس پڑتے ہیں۔ دراصل پروگرام میں دِکھایا جاتا ہے کہ مسٹر بین کرسمس سے قبل ایک کرسمس کارڈ خرید کر اسے اپنے سے خود ہی لکھتے ہیں اور کرسمس کے دن اسے کھول کر اپنے نام کے پیغام کو پڑھتے ہوئے کافی خوش ہوجاتے ہیں۔تاہم مسٹر بین کی ہنسی کے پیچھے ایک ایسا پیغام ہوتا ہے جسے دیکھ کر تنہا رہنے والے لوگوں کو تھوڑے پل کیلئے تسلی مل جاتی ہے۔
گرم چاکلیٹ کی خوشبو، وائن، منس پائی،کیرول گلوکاروں کی سریلی آواز اور کھلی ہوا میں آئس رنکس پر ناچتے بھاگتے لوگوں کی موجودگی ہی دراصل برطانیہ اور یورپ میں کرسمس تہوار کی اصل چہل پہل ہے۔کرسمس کے بازار برطانیہ کے شہروں میں لوگوں اور بچوں میں خوشی لاتے ہیں۔ پورے برطانیہ میں نومبر، دسمبر اور جنوری کے درمیان کرسمس کی شاپنگ شروع ہوتے ہی آپ کو مخصوص چوراہے، ٹاؤن ہال اور کاسل جادوئی مناظر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف رنگ برنگے قمقموں سے سجے اسٹال لوگوں کو خوب لبھاتے ہیں۔یوں تو برطانیہ میں کئی کرسمس مارکیٹ مشہور ہیں لیکن ان میں ونچسٹر کیتھیڈرل کی کرسمس مارکیٹ یورپ کی بہترین مارکیٹوں میں سے ایک ہے، جو اپنی ہلچل سے بھرپورماحول اور ونچسٹر کیتھیڈرل کے سائے میں شاندار مقام کے لیے مشہور ہے۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ برطانیہ میں کرسمس کا تہوار لوگ مذہبی اعتبار سے کم بلکہ روایتی اعتبار سے زیادہ مناتے ہیں۔د سمبر کے مہینے میں دکانوں میں خرید و فروخت کافی بڑھ جاتی ہے۔ ان دکانوں میں ہیروڈس، سیلف ریجیز اور جون لویس معروف نام ہیں جہاں بھاری تعداد میں لوگ شاپنگ کرتے ہیں۔تاہم برطانیہ میں آن لائن شاپنگ کے رحجان سے شاپنگ سینٹر کی بھیڑ میں اب کمی پائی جارہی ہے۔
کرسمس کے دن گھروں میں زیادہ تر لوگ تَرکی (جو مرغ کی نسل سے بڑا ہوتا ہے) پکاتے ہیں۔ اس کے ساتھ کئی قسم کی سبزیاں بھی ہوتی ہیں اور ساتھ میں شراب کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ اُس دن لوگ نئے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں اور زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ٹیلی ویژن پر مزاحیہ پروگرام یا فلم دیکھتے ہیں۔ اس دن پبلک ٹرانسپورٹ مکمل بند ہوتا ہے لیکن ائیر پورٹ کھلا رہتا ہے جہاں سے لاکھوں لوگ اپنے منزل و مقصود کے لئے پرواز کرتے ہیں۔
برطانیہ میں کرسمس میں لوگ اپنے گھروں کو رنگ برنگی بتیوں سے سجاتے ہیں اور کئی علاقوں میں گھروں کی بہترین سجاوٹ کے لئے انہیں انعام سے بھی نوازا جاتا ہے۔ گھروں میں کرسمس ٹری بھی لگا یا جاتا ہے جو کہ کرسمس تہوار کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔اس موقع پر بہت سارے لوگ فادر کرسمس کی بھیس میں بچوں کو تفریح کا سامان پیش کرتے ہیں اور مقامی چیریٹی کے لئے پیسہ بھی اکھٹا کرتے ہیں۔پورے دسمبر کے مہینے میں چیریٹی گروپ کیرول(کرسمس کے گیت) گا کر چیریٹی کے لئے پیسہ جمع کرتے ہیں۔ کرسمس کے دوسرے روز باکسنگ ڈے ہوتا ہے جس دن لوگ تحفہ کو کرسمس ٹری کے قریب رکھ دیتے ہیں جسے بچے صبح اٹھ کر کھولتے ہیں۔ اس دن زیادہ تر دکانوں میں باکسنگ ڈے سیل بھی لگتی ہے جہاں لوگ سستے داموں میں سامان خریدنے کے لئے جاتے ہیں۔
برطانیہ میں ہر سال کرسمس سے قبل ایک دلچپ بحث چھڑ جاتی ہے کہ کیا اس بار سفید کرسمس دیکھنے کو ملے گی۔ اگر آپ کرسمس کارڈ کو دیکھیں گے تو زیادہ تر کارڈ برف سے ڈھکے ہوئے ڈیزائن ہی مقبول ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے زیادہ تر لوگ اس بات سے پر جوش ہوتے ہیں کہ اس بار کرسمس کارڈ میں دکھنے والی تصاویر کی طرح ہو۔ لیکن یہ سردی اور برف باری بہت سے گھرانوں کے لیے انرجی بحران کی قیمت کو مزید خراب کر سکتی ہے کیونکہ برطانیہ میں گیس اور بجلی کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔
کرسمس کا تہوار دنیا بھر میں خوشی، امن اور محبت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ عیسائی مذہب کے ماننے والے یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں مناتے ہیں۔ جنہوں نے انسانیت کو محبت، رحم دلی اور قربانی کا درس دیا۔ میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ تہواروں میں اپنے آس پاس اور ایسے لوگوں کا خیال رکھا جائے جو کسی نہ کسی وجہ سے حالات سے دوچار ہیں۔ مجھے ہمیشہ کسی بھی تہوار پر انسان کی تنہائی اور بے بسی کا دُکھ کچھ پل کے لئے مایوس اور افسردہ کردیتا ہے۔میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ معاشرے میں جس تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور جس سے لوگوں میں جہاں طرز ِزندگی میں بدلاؤ آیا ہے وہیں اس کے ساتھ معاشرے میں تنہائی کا بھی احساس بڑھا ہے۔
روز مرہ کے کام و کاج کا دباؤ اور دیگر حالات نے جہاں انسان کی زندگی کو مصروف کر رکھا ہے تو وہیں کرسمس جیسے تہوار نے چارملین سے زیادہ لوگوں کوتنہا ئی کا احساس بھی دلاتا ہے۔ہمیں ایسے لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ میں آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آنے والا سال ہم سب کے لئے نیک ہو اورخوشیوں سے بھرا ہو۔
نیا سال مبارک ہو۔