تحریک انصاف کے خلاف پاک فوج کا ’اعلان جنگ ‘

  • ہفتہ 28 / دسمبر / 2024

پاکستان تحریک انصاف  نے اگرچہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائیریکٹر جنرل  لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری  کی پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات کو فرسودہ  کہہ کر مسترد کیا ہے اور کہا کہ وہ صرف ایک شفاف آئینی نظام کے لیے کام کررہی ہے۔ لیکن گزشتہ روز کی  پریس کانفرنس میں آئی  ایس پی آر نے واضح کیا کہ  تخریبی سیاسی قوتیں اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے  تشدداور غیر قانونی  راستے اختیار کررہی ہیں۔

 لیفٹینٹ جنرل احمد شریف نے  گو کہ اپنی طویل  پریس کانفرنس  میں کسی سیاسی  پارٹی کا نام نہیں  لیا  لیکن انہوں نے جن وقوعات کا ذکر کیا ور جس سیاسی رویہ کی نشاندہی  کی ہے، اس سے  کوئی شبہ بااقی نہیں رہتا کہ فوج اس وقت ملک کی کس سیاسی قوت کے طریقوں کو ناجائز  اور ملکی مفاد کے خلاف سمجھ رہی ہے۔  پاک فوج کے ترجمان نے پاکستان  تحریک انصاف کو سیاسی دہشتگردی کا مرتکب قرار دیا  ہے۔انہوں نے  کہا کہ پارٹی تشدد اور زبردستی مرضی ٹھونسنے    کی پالیسی اختیار کرتی ہے۔ یہ اسی طرز عمل کا تسلسل ہے جس کا آغاز 2014میں ہوا تھا ۔ یہ سلسلہ 9  مئی کے مظاہروں کے  علاوہ 26 نومبر کے احتجاج  میں جاری رہا۔ 

فوجی عدالتوں نے حال ہی میں سانحہ 9 مئی    کے الزام میں    85 افراد کو   مختلف المدت سزائیں  دی ہیں۔ پریس کانفرنس کے دوران لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف  چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں الٹا سوال کیا کہ ’جو گروہ تشدد سے اپنی بات منوانے پر  مصر ہو اس کے ساتھ مذاکرات کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں‘ ۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’  دنیا میں اگر مذاکرات سے ہی سارے معاملات طے ہو جاتے تو کوئی لڑائی جھگڑا  اور جنگ نہ ہوتی ‘۔   گویا  آئی ایس پی آر کے ڈی جی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اپنی موجودہ حکمت عملی کے ساتھ قابل قبول نہیں ہے۔  فوجی ترجمان کی باتوں کو  حال ہی میں حکومت اور  تحریک انصاف کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے  بھی سمجھنا اہم ہے ۔ حکومت  کو امید ہے کہ  مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے  اور مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا جاسکے گا۔ تحریک انصاف نے بھی کہا ہے کہ  وہ مذاکرات  کے دوسرے دور   میں 2جنوری کو  اپنے مطالبات  باقاعدہ طور سےپیش کرے گی۔  البتہ   تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات  کے بارے میں فوج کے انتہائی منفی مؤقف کی روشنی میں ان کی  کامیابی کا امکان نہیں ہوگا۔ شہباز حکومت،  فوج کی پشت پناہی ملنے پر تحریک انصاف کو کوئی رعایت دینے پرتیار نہیں ہوگی۔

تحریک انصاف کے   عمران خان  سمیت تمام سیاسی کارکنوں کی رہائی، انتخابی دھاندلی کی تحقیقات   اور 9 مئی اور  26 نومبر کے واقعات کی  عدالتی تحقیقات  پر ک امطالبہ کرتی ہے۔     بظاہر ان مطالبات میں بھی ملکی مسائل  حل کرنے کی کوئی تجویز  موجود نہیں ہے۔   تحریک انصاف کے موقف کے مطابق  اگر مان  لیا جائے کہ 8 فروری کے انتخابات دھاندلی زیادہ تھے۔ پھر اس کا ایک  ہی حل ہے کہ  اقتدار  پی ٹی آئی کے حوالے کردیا جائے، موجودہ حکومت ایک طرف ہو جائے۔  مسئلہ  خود ہی حل ہو جائے گا۔ لیکن پاکستان کے سیاسی مسائل اس  تجویز کردہ ’حل‘ سے  زیادہ سنگین اور گہرے ہیں۔   عمران خان  یا سیاسی کارکنوں کی رہائی کے  معاملات  عدالتوں میں زیر غور ہیں۔ اصولی طور پر وہی ان پر فیصلے کریں گی ۔ سیاسی  بات چیت کے ذریعے  اس معاملہ پر کسی نتیجے تک  پہنچنا شاید ممکن نہیں ہوگا۔ 

9 مئی اور  26 نومبر کی عدالتی تحقیقات کے  حوالے سے بہت زیادہ  مشکلات اور اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔  ایسی صورت میں   ایک طرف فوجی عدالتیں  85لوگوں کو سزائیں دے چکی ہیں۔  اور دوسری طرف جمعہ کی پریس کانفرنس میں  جنرل احمد شریف  چوہدری نے سوال  اٹھایا ہے  کہ   ’جو گروہ تشدد کے ذریعے اپنی بات منوانا چاہے اسے معاشرے میں کیسے قبول کیا جا سکتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ کہ’9 مئی کے بارے میں  افواج پاکستان کا نقطہ نظر ہے  انتہائی واضح ہے۔ یہ افواجِ پاکستان کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ عوام کا مقدمہ ہے۔ اگر کوئی مسلح و  پُرتشدد گروہ اپنی مرضی سے ، اپنی سوچ مسلط کرنا چاہے اور اسے آئین کے مطابق نہ روکا جائے تو پھر ہم اس معاشرے کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟‘

ملک کی ایک اہم پارٹی کے بارے میں  یہ اعلان کرتے ہوئے  پاک فوج  دراصل یہ اعلان کر رہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی موجودہ  پالیسی یا قیادت یا دونوں  کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے  میں سب سے بڑا سوال تو یہی پیدا ہوگا  کہ کیا   ملک کا فوجی ادارہ کسی بھی سطح پر مطالبہ کر سکتا ہے کہ فلاں گروہ اس کے خیال میں تشدد سے سیاسی  مطالبے منوانے کی حکمت عملی پر قائم ہے لہٰذا اس کے ساتھ بات چیت نہیں ہونی چاہیے۔ یا یہ کامیاب نہیں ہو سکتی۔  اس  سوال کا جواب صرف تحریک انصاف   کو نہیں بلکہ  اتحادی حکومت کا حصہ مسلم لیگ (ن)  ، پیپلز پارٹی  اور دیگر سیاسی  جماعتوں کو دینا چاہئے۔  یہ بہت  بنیادی  اصولی بات ہے کہ  کیا ہماری سیاسی پارٹیاں  اتنی بالغ النظر ہو چکی ہیں کہ  وہ سیاسی امور پر دیگر اداروں کی مداخلت  قبول کرنے سے انکار کردیں۔

2جنوری کو  حکومتی  پارٹیوں  اور تحریک انصاف میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگا ۔ اس موقع پر    تحریک انصاف اور مسلم لیگ  (ن) کے نمائیندے ایک دوسرے کے دست وگریباں ہونے اور مطالبات پر پر غور کی بجائے، سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا جائے کہ  سیاسی پارٹیاں لیفٹیننٹ  جنرل  احمدشریف چوہدری  کی  پریس کانفرنس  کو مسترد کریں۔  واضح کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ حالات میں جب  فوج  خود بھی اپنے ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے خلاف کارروائی کر رہی ہے  تو فوج  کویہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ  وہ  ملکی سیاسی صورتحال کے بارے میں اظہار خیال کرے ۔ اور سیاسی  فریقوں کے درمیان مذاکرات  کو ناکام بنانے کی کوشش کی جائے۔

جواب میں فوج ضرور کہہ سکتی ہے کہ سیاسی  جماعتیں  اپنی  مرضی پر عمل کرسکتی ہیں، فوج نے تو ایک رائے  دی ہے۔  لیکن سب سے  اہم پہلو   تویہی  ہےکہ فوج کو ملکی سیاست کے بارے میں کوئی موقف اختیار کرنے کا حق بھی نہیں دیا جا سکتا۔  اگر ملک میں کسی قسم کا آئینی انتظام جاری رہنا ہے،  اگر عدالتوں کو کام کرنا ہے،  اگر سیاست دانوں نے ہی حکومتیں بنانی اور چلانی  ہیں تو پھر یہ  طے کرنا پڑے گا کہ فوج اگر آج  کسی ایک سیاسی گروہ کی طرف اشارہ کرتی ہے تو کیا باقی پارٹیاں  اسے اپنی صفوں سے نکال دیں ؟ یا اس کے  آئینی سیاسی حق  کی حفاظت  کے لیے اکٹھی ہوں؟  تاکہ مستقبل میں پھر کوئی  نئی  فوجی قیادت  یا نیا فوجی نمائندہ یہ نہ کہے کہ  اب ہمیں فلاں پارٹی ناپسند ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو سوچنا پڑے گا کہ وہ واقعی ملک میں آئینی  جمہوری نظام چاہتی ہیں یا محض اقتدار میں باریاں  لینے کے لیے فوج کو راضی رکھنے کی  ’آزمودہ‘ ترکیب پر  ہی عمل پیرا رہیں گی۔ تاہم یہ بنیاد ی اصولی مقصد حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے  تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے  کے علاوہ یہ ماننا ہوگا کہ سب  پارٹیاں ہی ملکی سیاسی عمل  کے لیے اہم ہیں۔

پاکستان کے معروضی   حالات میں  یہ سوال بہت اہم ہے کہ اگر فوج ایک سیاسی پارٹی کے بارے میں ’ اعلان جنگ‘ کر رہی ہے  تو کیا اس کے لیے  ملکی سیاست میں فعال رہنا ممکن ہوگا؟ کیا اس پارٹی کے مستقبل کے بارے میں کوئی خوش آئیند قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔  اگر   ایسا ممکن نہیں تو ملک  کوکن معنوں میں   جمہوری آئینی نظام پر کاربند کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی بڑی اکثریت تحریک انصاف پر اعتماد کرتی ہے اور  اسے ووٹ دے کر اسمبلیوں میں نمائیندگی کا حق دیتی ہے۔  کیا اب عوام کو بتایا جائے گا کہ وہ کس پارٹی پر اعتماد کرسکتے ہیں یا یہ مانا جائے گا کہ ملک کا آئین عوام کو اپنی عقل و شعور کے مطابق ملکی حکومت چننے کا اختیار دیتا ہے۔ نہ صرف  اس حق کا احترام کرنا ہر شہری و ادارے پر فرض ہے بلکہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا عمل بھی بادی النظر میں آئین شکنی ہوگا۔

اگر ملک کے منتخب سیاستدان چاہتے ہیں کہ فوج  یا کسی دوسرے ادارے  کو  شرائط عائد کرنے کا ’اختیار‘ دے دیا جائے تو چھبیسویں ترمیم کی طرح اس مقصد کے لیے آئین میں ترمیم ضروری ہوگی تاکہ قوم کم از اکم اس  الجھن سے باہر نکل آئے کہ  وہ حق انتخاب میں بااختیار ہے۔ بلکہ انہیں معلوم ہو  کہ وہ  صرف  اسی صورت میں  اپنے نمائیندے چن سکتے ہیں جب انہیں اس کی ’اجازت‘ دی جائے۔

پاک فوج کے نمائیندے کی طرف سے پریس کانفرنس میں کسی سیاسی پارٹی کی کردار کشی ناقابل قبول اور افسوسناک طریقہ ہے۔ اگر    مان لیا جائے کہ  حالات کے جبر کی وجہ سے فوجی قیادت سیاسی لیڈروں کو  ایسے اہم معاملہ پر اپنی رائے سے آگاہ کرنا چاہتی تھی تو اس کے  لیے سب سے اچھا فورم  ایپکس کمیٹی   ہوتا۔ وہاں پر عسکری  قیادت حکمران سیاسی لیڈروں کو اپنی رائے سے آگاہ کرسکتی تھی۔ پریس کانفرنس میں ایک سیاسی پارٹی پر الزام تراشی کے طریقے سے ملک کا سیاسی نظام مزید بدحالی کا شکار ہو گا بلکہ   اداروں کے بارے میں بھی شبہات مزید  بڑھیں گے۔  دوسری صورت میں  کسی سیاسی پارٹی  کے  ہتھکنڈوں پر  تشویش کا مسئلہ پارلیمنٹ  میں زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ آئین  نے کسی سیاسی پارٹی پر پابندی لگانے کا طریقہ وضع کررکھا ہے لیکن ملکی تاریخ گواہ ہے کہ یہ طریقہ کبھی کامیاب  نہیں ہؤا۔

تحریک انصاف کے خلاف فوج کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے  آئی ایس پی آر کے سربراہ نے ایک اہم نکتہ یہ بھی   پیش کیا ہے کہ  2021 میں پی ٹی آئی کی حکومت نے   افغانستان سے  تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کو  معاف کرنے اور پاکستان لاکر آباد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔  اگر یہ فیصلہ عمران خان کی حکومت نے بھی کیا تھا تو فوج بھی اس وقت اس فیصلہ سازی میں شامل تھی۔ فوج کے ترجمان نے اس بارے میں اپنے حصے کی غلطی ماننے سے گریز کیا ہے۔   تحریک انصاف کی حکومت  اپریل 2022 میں ختم کردی گئی تھی۔  گویا فوج اس حکمت عملی کو جاری رکھنے پر مطمئن تھی لیکن بعد میں یہ صورت حال تبدیل ہوئی۔   معاملات میں دیانتداری کے اصول کے تحت آئی ایس پی آر کو  نیا مؤقف بیان کرتے ہوئے یہ بتانا چاہئے تھا کہ سابقہ مؤقف  سے کیوں رجوع کیا جارہا ہے۔  اس کا سارا بوجھ تحریک انصاف پر ڈالنا مناسب نہیں ہوگا۔

پاک فوج کی موجودہ قیادت عملی سیاست میں الجھنے سے انکار کرتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی قیادت کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلوں میں شامل ہوتی ہے یا رائے دیتی ہے۔ تحریک انصاف کے بارے میں  لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے الزامات و مؤقف کو اگر شہباز حکومت کا بیانیہ مان کیا جائے تو بھی پاک فوج کے  عہدیداروں کو اپنے  حلف کی روشنی میں  فرائض انجام دینے چاہئیں۔ فوجی ترجمان کو حکومت کا نمائیندہ بننے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔