’اڑان پاکستان‘ کا آغاز اور شہباز شریف کی اڑان

وزیر اعظم  شہباز شریف نے پاکستان میں نئے  پانچ سالہ معاشی پلان’ اڑان پاکستان‘  کا اعلان کرتے ہوئے آج ملکی معیشت کے بارے میں بعض امید افزا باتیں کی ہیں ۔ انہوں نے  ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو مل جل کر کر کام کرنا ہوگا اور کام کو فوقیت دینا ہوگی ۔

وزیر اعظم کی اس بات سے   تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کو اب کافی آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور یہ مقصد  مل جل  کر بنیادی اصولوں پر متفق ہونے  اور معاشی احیاکے معاملات کو قومی جذبہ سے دیکھتے ہوئے حکمت عملی پر  اتفاق رائے    سے ہی حاصل کیا جاسکتاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دیکھنا چاہئےکہ جس قدر پاکستان کو اس وقت سیاسی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی بگڑی ہوئی معیشت اور  عوام کی  زبوں حالی پر قابو پایا جا سکے ،  سیاسی جماعتوں اور  مختلف فریقوں میں فاصلوں  میں  بھی  اسی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔   آج  کی تقریب میں  تقریر کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا  تھا کہ وہ اس موقع پر سیاسی بات نہیں کرنا چاہتے ، صرف معیشت پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ لیکن  دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی ساری تقریر دوسروں کی سیاسی و معاشی ناکامیوں اور مسلم  لیگ (ن) کی کامیابیوں اور نواز شریف کے ویژن  کے بیان پر منحصر تھی۔  ان کا دعویٰ تھا کہ نواز شریف کو اگر اپنی معاشی ترجیحات کی بنیاد پر نوے کی دہائی میں کام کرنے کا موقع   ملتا تو شاید پاکستان  بھی  معاشی ترقی میں بھارت کے ہم قدم ہوتا ہے۔

ہوسکتا ہے  کہ  معاشی  ترقی  کے معاملے میں  ان کی بات میں کسی حد تک درست ہو لیکن ماضی کے حوالے دینے سے وقت کا پہیہ پیچھے نہیں گھمایا جاسکتا۔ پاکستان کو ترقی کرنے کےلیے پیچھے دیکھنے کی بجائے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔   ماضی کےحوالے  مستقبل کو خوشگوار نہیں بنا سکتے۔  اپنی تقریر میں وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ ابھی حال ہی میں انتقال کرنے والے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ  کی کامیابی کا راز اصل میں یہ تھا کہ انہوں نے نواز شریف کے اصولوں کو اپنایا تھا ۔ وہی معاشی ماڈل اختیار کیا تھا جس میں آگے چل کر وہ ملک کو کامیابی سے ترقی کی طرف گامزن کرانے میں کامیاب ہوئے ۔  وزیر اعظم کی طرف سے  یہ حوالہ دینے سے دو طرح سے پریشانی ہوتی ہے۔  ایک تو یہ کہ ہمارے خطے  کے ایک بہت بڑے لیڈر کا ابھی حال ہی میں انتقال  ہؤا ہے۔  وہ دس سال تک  بھارت  کے وزیراعظم رہے۔  ان  10سالوں کے دوران اور  اس سے پہلے وزیر خزانہ کے طور پر  انہوں نے  معاشی پالیسی  کا جو ڈھانچہ بنایا،  اس کی وجہ سے صرف ان کی پارٹی اور ملکی   عوام  ہی  نے ان کی توصیف نہیں کی بلکہ   کانگرس پارٹی کی مخالف بھارتیہ  جنتا پارٹی کی حکومت  نے بھی انہیں قومی ہیرو قرار دیا ہے اور ان کی گراں مایہ خدمات  کو سراہا ہے۔ اسی لیے ان کے  انتقال  پرسرکاری سوگ  کا اعلان کیا گیا  اور ان کی  آخری رسومات   سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔  ایسے موقع پر اگر   آنجہانی لیڈٖر کی کسی پاکستانی  رہنما سے کوئی مماثلت موجود بھی ہو تو اس کا یوں اظہارمناسب نہیں۔  خاص طور پر  وزیراعظم کے منصب پر فائز  کسی شخص کو ایسی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا۔ اس سے محض یہ  تاثر قوی ہوتا ہے کہ در حقیقت  ان کے پاس کہنے اور کرنے کیلئے کچھ خاص ہے نہیں۔  اور وہ اس قسم کی  لایعنی  مثالوں سے  اپنی اور اپنے بھائی  یا لیڈر کی اہمیت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔

 اس معاملہ  کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ  نواز شریف اور   من موہن سنگھ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔ من موہن سنگھ  معاشیات میں  پی ایچ ڈی تھے۔ وہ ایک  دیانت دار بیوروکریٹ تھے۔  انہوں نے  انڈیا کے سنٹرل بینک کی سربراہی کی تھی ۔ وہ ایک منکسرالمزاج  شخص تھے  جو اپنی ذاتی حیثیت میں کسی عہدے یا مفاد کے  خواہاں نہیں تھے۔   وہ کسی بھی قسم کا ذاتی مقصد رکھنے والے انسان نہیں تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی  قوم  وملک کے لیے کام کیا ۔  انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی بنانے ، خود کو  نمایاں کرنےاور آگے لانے کی کوشش نہیں کی ۔  سیاسی حالات  کی وجہ سے  کانگریس پارٹی کو انہیں وزیراعظم بنانا پڑا ۔ وزیراعظم کے طور پہ انہوں نے انتہائی  انکسار سے عوام  و ملک کی خدمت کی۔

ایسے شخص سے نواز شریف کا مقابلہ کرنا  درست نہیں ہوسکتا جنہوں نے ذاتی   ترقی اور اقتدار کے حصول کے لیے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ نواز شریف صاحب  بہت اہم  اور  اہل سیاست دان ہیں لیکن ان کی تعلیم  واجبی ہے۔   خیال کیا جاتا ہے کہ خاندانی تجارتی پس منظر ہونے کی وجہ سے وہ شاید معیشت کو بہتر سمجھتے رہے ہیں ۔ ان کی منصوبہ بندی میں  ایسے عنصر شامل  ہوں گے جو کسی بھی معاشی بحالی کے لیے  ضروری ہوتے ہیں۔ بعد از وقت  شہباز شریف کے کہنے سے یہ ثابت نہیں ہوجائے گا کہ اگر من موہن سنگھ،  نواز شریف  کے معاشی ماڈل پر عمل نہ کرتے  تو ان کا سیاسی قد چھوٹا رہ جاتا۔  انہوں نے  اگر پاکستان میں نواز شریف  کے خیالات  پر عمل نہ کیا ہوتا  توبھارت ترقی نہ کرسکتا۔

ملک کا معاشی پلان لانچ  کرتے ہوئے وزیر اعظم کی ان باتوں سے حکومت کے مستقبل کے طریقہ کار کی وضاحت نہیں ہوتی۔  حالانکہ شہباز شریف نے امید ظاہر کی ہے کہ برآمدات میں اضافہ ہوگا اور ملکی معیشت کو ٹھوس بنیاد فراہم کی جائے گی۔   حتیٰ کہ نائب وزیرعظم اور وزیر خار جہ  اسحاق   ڈار نے وزیرعظم سے پہلے  تقریر کرتے ہوئے  یہ  امید  بھی ظاہر کی  کہ پاکستان جلد ہی جی ۔20 میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  اس کے برعکس جب وزیر خزانہ  محمد اورنگ زیب  نے اپنا جائزہ پیش کیا تو انہوں نے بتایا تھا کہ اگر آئی ایم ایف سے  نجات حاصل کرنے کے لیے ہمیں قومی پیداوار کی شرح 4 فیصد تک بڑھانا ہوگی۔ وزیرعظم شہباز شریف  نے اسی  قصد  اور خواہش کیا ہے ۔ قومی پیدا وار 4 فیصد تک لے جانے میں  پاکستان  کو شاید ابھی  مزید  ایک سے دو سال درکار ہوں گے۔ اس وقت  قومی پیداوار  کا تخمینہ دو اڑھائی  فیصد سالانہ  ہے۔  اسے چار  فیصد پر لانے کے  لیے  ابھی کافی محنت کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اس حوالے سے  ملکی حالات  کوئی بہت  خوشگوار  تصویر پیش نہیں کرتے ۔

من موہن سنگھ نے بھارت میں  جو بنیادی اصلاحات کی تھیں،  ان میں سرمایہ کاری کی حوصلہ  افزائی سر فہرست تھی۔  اس  مقصدکے لیے  ملک کے بیوروکریسی نظام کا شکنجہ کمزور کیا گیا تھا تاکہ تاجروں و صنعتکاروں کو ایک دوستانہ ماحول میں معاشی ترقی کے لیے کام کرنے کا موقع ملے۔  سرمایہ داروں  کو اعتماد و بھروسہ حاصل ہو  کہ  حکومت ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بلکہ ان کی سہولت کار ہے۔ شہباز شریف اب یہی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔   انہوں  نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن کہنا آسان اور کرنا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی توقع کرنے سے پہلے مقامی سرمایہ کاری کے فروغ کی ضرورت ہے۔ یہ وہی ماڈل ہے جس پر عمل کرکے من موہن سنگھ نے بھارتی معاشی مسائل کا  منہ موڑ دیا تھا۔

بنیادی طور پر معاشی احیاکا  یہی اصول ہے کہ سرمایہ کاری کی حوصلہ  افزائی  کی جائے  اور سرمایہ کاروں کے لیے کام کا اچھا ماحول پیدا کیا جائے تاکہ سرمایہ کار بے دھڑک اپنا پیسہ لگائے ، اس سے  خود بھی منافع  کمائے لیکن ملک میں روزگار بھی پیدا ہو اور معاشی  سرگرمی  بھی دیکھنے میں آئے ۔  پاکستان میں  یہ کمی محسوس کی جاتی ہے ۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ  تقریروں کی بجائے ملک میں  بیوروکریسی کی اصلاح ہو اور اس کے ناجائز اختیارات کو لگام دی جائے۔ سرمایہ کاری  کے فروغ  اور معاشی احیا کے لیے  بیورو کریسی کو بیک بینچ پہ لانا ضروری ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے نام سے  سول ملٹری بیوروکریسی   پاکستانی معیشت  اور انتظامی  معاملات پر حاوی ہے۔ ملکی معاملات کو درست کرنے میں بہت سخت محنت اور وسیع سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔

. بہتر ہوتا  وزیراعظم صاحب  اپنی تقریر میں اس سیاسی اتفاق رائے کے بارے میں زیادہ روشنی ڈالتے اور  اور بتاتے کہ  2 جنوری کو جب  حکومتی پارٹیاں تحریک انصاف کے ساتھ  مذاکرات  کا آغاز کریں گی  تو  حکومت کی کیا پالیسی ہوگی۔  کیا وہ حال ہی میں تحریک انصاف کے خلاف  فوج کی  طرف سے عائد کی جانے والی فرد جرم  کو نظر انداز کرتے ہوئے فوج کو یہ مشورہ دیں گے کہ ہمیں آگے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔  معاشی ترقی کے  لیے ماضی  میں جو ہو گیا،  اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔ ملکی مسائل اسی وقت حل ہوں گے اگر شہباز شریف ملک کو ایسی قیادت فراہم کرسکیں جو فیصلے کرنے اور انہیں نافذ کرنے کی  صلاحیت رکھتی ہو ۔

تاہم  پاکستان میں سیاسی  تصادم معاشی سست روی کی واحد وجہ نہیں ہے۔ ملک میں تسلسل سے پھیلتی دہشت گردی، علاقائی بے چینی اور مذہبی انتہا پسندی بھی ایسے چیلنجز ہیں جو من موہن سنگھ کے بھارت کو درپیش نہیں تھے۔  حال ہی میں مذہبی عناصر کے دباؤ پر مدرسہ بل منظور کیا گیا ہے۔   ملک میں ہونے والی ایسی پیش رفت سے  حکومتی اتھارٹی کی بجائے معاشرے میں مختلف سطح پر کام کرنے والے گروہوں کی من  مانی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ تاثر  سرمایہ کاری اور معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔