جشن کس طرح مناؤں سالِ نو کا میں فہیم
- تحریر فہیم اختر
- بدھ 01 / جنوری / 2025
یوں تونیا سال ہمیشہ امیدوں، خوابوں اور تبدیلیوں کی علامت ہوتا ہے۔ یہ وقت نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی عزم نو اور منصوبہ بندی کا ہوتا ہے۔ تاہم وہیں بہت سارے لوگ نئے سال کی آمد پر نہ تو کوئی جشن مناتے ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی اپنی دھن میں جیتے رہتے ہیں اور زمانے کے ساتھ کچھ پل کے لیے ہنس گا کر نیا سال منالیتے ہیں۔
ہم بھی آپ کو نئے سال2025 کی مبارک باد دیتے ہیں۔نیا سال مبارک ہو۔ یوں تو نیا سال دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی نیا سال خوب دھوم دھام سے منایاگیا۔ لندن میں بھی دریائے تھیمس کے کنارے آتش بازی کی زبردست نمائش ہوئی۔ لاکھوں لوگ اپنے قریبی دوست اور رشتہ داروں کے ہمراہ اس نظارے کو دیکھنے کے لئے لندن کے معروف بگ بین کے قریب جمع ہو ئے۔ جس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی۔ جو اپنے نئے عزائم اور امیدوں کے ساتھ پر جوش تھے۔
لندن میں نئے سال کا جشن کئی اہم شہروں کی طرح کافی اہم مانا جاتا ہے۔ اگر میں ہندوستان اور پاکستان کی اہم تہواروں سے مشابہت کروں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔31دسمبر کی رات سے پہلی جنوری کی صبح تک لندن ٹرانسپورٹ مسافروں سے کوئی کرایہ وصول نہیں کرتی ہے جسے لندن مئیر کی طرف سے ایک تحفہ سمجھا جاتا ہے۔لندن کا معروف اور تاریخی بگ بین جیسے ہی اپنی گرج دار آواز کے ساتھ رات کے بارہ بجنے کا اعلان کرتا ہے لندن ویل سے آتش بازی کا مظاہرہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس وقت لوگ اپنی محبت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں اور نئے سال کو کس طرح گزارے گے، اس کا اقرار کرتے ہیں۔
نئے سال کی آمد کا جشن لندن کے علاوہ بیجنگ، سڈنی، نیویارک، پیرس اور دبئی میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ایک مخصوص اور معروف جگہ پر جمع ہو کر آتش بازی کا بہترین مظاہرہ دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے دن اخباروں میں کس شہر کی آتش بازی شاندار تھی اس پر تبصرہ بھی ہوتا ہے۔ ان آتش بازیوں کے مظاہرے پر کروڑوں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں جو ان لوگوں سے وصول کئے جاتے ہیں جو اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔
2024ایک پیچیدہ سال ثابت ہوا، جس میں دنیا کئی اہم سیاسی اور سماجی تبدیلیوں سے گزری۔روس اور یوکرین تنازع اب تک جاری ہے، جس نے عالمی معیشت اور توانائی کی قیمتوں پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کا ظلم و کہر اب تک نہیں تھما ہے۔ایک ہزار اسرائیلیوں کی جان جانے پر اسرائیل نے اب تک چالیس ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو مار ڈالا ہے جس میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی اپیل کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے اور غزہ کے فلسطینیوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔عرب ممالک صرف میٹنگ بلا رہے ہیں اور اب تک کچھ نہیں کر پائے ہیں جس کی ایک وجہ شایدامریکہ کی دھمکی ہے جس میں اس نے کسی ملک کو بھی فلسطین معاملے میں ٹانگ اڑا نے پر وارننگ دی تھی۔
مجھے لگتا ہے کہ سال 2025دنیا کے لیے سیاسی اورسماجی تبدیلیوں کا ایک اہم سال ہوگا۔ جہاں کئی ممالک اپنے موجودہ بحرانوں سے نکلنے کی کوشش کریں گے اور کچھ نئے چیلنجز کا سامنا کریں گے۔عالمی طاقتوں کی کشمکش، ماحولیاتی مسائل اور ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی اس سال کے اہم موضوعات ہوں گے۔امریکہ اور چین کے درمیان سیاسی اور تجارتی رقابت مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی، اقتصادی اثر ورسوخ اور فوجی طاقت کے میدان میں دونوں طاقتیں اپنا اثر بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ممکنہ طور پر" نئی سرد جنگ "کا ماحول پیدا ہوگا، جس میں ترقی پذیر ممالک کو اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کے حوالے سے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔روس اور یوکرین کے تنازعے کا اثر 2025میں بھی جاری رہ سکتا ہے۔ اگرچہ سفارتی کوششیں جاری ہیں لیکن امریکہ اور یورپ کے جارحانہ رویے سے اس تنازعے کا مکمل خاتمہ فی الحال مشکل دکھائی دے رہا ہے۔اس تنازعے سے عالمی معیشت اور توانائی کی منڈی اثرانداز ہورہے ہیں جس سے عام آدمی کا جینا محال ہورہا ہے۔
2024 میں یورپ کے الیکشن میں دیکھا گیا کہ فار رائٹ یا شدت پسندپارٹیاں لوگوں میں مقبول ہورہی ہیں۔جس کے مد نظر یورپی یونین داخلی اور خارجی سطح پر ایک نئے راستے کی تلاش میں ہیں۔ خاص طور پر مہاجرین کے بحران، موسمیاتی تبدیلیوں اور معاشی عدم استحکام کے مسائل کے پیش نظرکئی نئی پالیسیوں کا انعقاد ہوسکتا ہے تاکہ فار رائٹ پارٹیوں کی مقبولیت کو روکا جاسکے۔
2024 میں ہندوستان کی بی جے پی پارٹی کو اکثریت نہ ملنے پراس نے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنائی ہے اور اسے ایک مستحکم حکومت کی تشکیل پر کام کرنا پڑے گا جو کہ ایک بڑاچیلنج ہے۔کیونکہ مودی تیسری بار وزیراعظم تو بن گئے ہیں لیکن ان کو اس بات کا خطرہ لاحق رہے گا کہ کب ان کے اتحادی ان کا ساتھ چھوڑ دیں۔ جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام کی کوششیں جاری رہیں گی لیکن ان ممالک میں کبھی بھی کچھ ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ شیخ حسینہ کا ملک سے فرار ہونا اور عمران خان کا جیل میں وقت گزارنا ایک معمہ بنا ہوا ہے۔تاہم بنگلہ دیش کا پاکستان سے قریب ہونا بھی ہندوستان کے لیے ایک دردِ سر بنا ہوا ہے۔
لیکن ان تمام باتوں کے علاوہ 2025 بڑی بے صبری سے ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ امریکی صدر بننے کا منتظر ہے۔ کیونکہ ٹرمپ کے صدر بنے کے بعد دنیا کی سیاسی اور اقتصادی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی حمایت میں مزید اضافہ ہوگا، جبکہ ایران کے خلاف سخت پالیسیوں کی واپسی کا امکان ہے۔ ٹرمپ کی واپسی دنیا کے سیاسی اور اقتصادی منظر نامے میں عدم استحکام اور غیر یقینی کیفیت پیدا کرسکتی ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ 2025سماجی تبدیلیوں کا ایک اہم سال ثابت ہوگا۔ دنیا میں اس وقت کئی بڑے مسائل اور تنازعات کے ساتھ ساتھ امید اور پیچ رفت کی راہوں پر بھی گامزن ہے۔امریکہ اور چین کے درمیان سیاسی اور معاشی رقابت مزید گہری ہوسکتی ہے۔ چین اپنی عالمی حیثیت مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا، جبکہ امریکہ ایشیا اور دیگر خطوں میں اپنے اتحادیوں کو مضبوط کرنے پر توجہ دے گا۔روس اور یوکرین کا تنازع جاری رہنے کا امکان ہے، جس کے اثرات یورپ اور دنیا کی توانائی کی منڈیوں پر پڑتے رہیں گے۔یورپی یونین موسمیاتی تبدیلیوں، مہاجرین کے بحران اور داخلی سیاسی تقسیم جیسے مسائل کا سامنا کرے گی۔ بریگزِٹ کے بعد برطانیہ کی یورپ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بھی زیر بحث رہے گی۔ مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری اور اسرائیل و فلسطین تنازع جیسے مسائل خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا کریں گے۔ تیل کی قیمتوں اور توانائی کی پلایسیوں کا اثر عالمی سیاست پر پڑے گا۔
یوں تو 2024کئی معنوں میں لوگوں کے لئے کافی ملا جلا سال تھا۔ دنیا بھر میں سیاسی اتھل پتھل دیکھنے کو ملی اور روس اور یوکرین کے مابین جنگ بھی دیکھی گئی۔اس کے علاوہ دنیا کی معیشت بھی دھیمی پڑتی دکھائی دی جس سے مہنگائی نے پوری دنیا کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔لیکن سب سے بڑا سانحہ فلسطین کا ہے جہاں چالیس ہزار سے زیادہ بچے، عورتوں کو مار دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی درندگی نے اقوام متحدہ کو مایوس اور ناکارہ بنا دیا ہے تو وہیں امریکہ اور برطانیہ کی اسرائیل کی پشت پناہی سے دنیا حیران اور مایوس ہے۔
میں نے پچھلے کئی سالوں کی طرح 24 20کو بھی مشکلات سے گھرا اور مایوس کن سال پایا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ایسے لیڈر چنے گئے ہیں جن سے دنیا کی سلامتی کو ہر وقت خطرہ لاحق ہے۔تا ہم اوروں کی طرح اس بات پر ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ انشااللہ دنیا میں امن قائم ہوگا اور ہم خوش و خرم زندگی گزاریں گے۔اسی امید پر نیا سال مبارک ہو۔اپنے اس شعر سے بات ختم کرتا ہوں کہ:
جشن کس طرح مناؤں سالِ نو کا میں فہیم
اب تو عہدِ نو کا مجھ کو انتظار بھی نہیں