مذاکرات میں ایک اور التوا

حکومتی پارٹیوں اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور آج ایک نئے التوا کے ساتھ ختم ہوگیا۔ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اس اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے کی۔ خبروں کے مطابق فریقین نے خوشگوار ماحول میں بات چیت کی اور دسیع تر قومی مفاد کو پیش  نظر رکھ کر آگے بڑھنے  کی خواہش کا اظہار کیا ۔ تاہم تحریک انصاف نے عمران خان سے مشاورت اور اجازت کے لیے  مزید وقت مانگا جس کے بعد مذاکرات ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردیے گئے۔

حکومت اور تحریک انصاف کے  وفودکے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور میں   پی ٹی آئی نے غیر رسمی طور پر  پارٹی کے  دو اہم مطالبات یعنی  عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور 9 مئی و 26 نومبر کے واقعات کی عدالتی تحقیقات  کا تقاضہ کیا۔  اس کے ساتھ ہی  ان کا  یہ بھی کہنا تھا کہ  مذاکراتی ٹیم کوعمران خان سے مشورہ کرنے اور آئندہ لائحہ عمل بنانے کی لیے مزید وقت  درکار ہے ۔ حکومتی کمیٹی نے اپوزیشن کے اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ انہیں عمران خان سے مشاورت کا جتنا وقت چاہیے ، وہ  اسے ملنا چاہیے۔ اس حوالے سے جو   سہولت  درکار ہو، وہ بھی فراہم ہونی چاہیے۔  اپوزیشن کی بات مان لینے کے بعد اجلاس خوشگوار ماحول میں ملتوی ہوگیا۔ امید ہے کہ آئیندہ ہفتے یہ اجلاس دوبارہ  طلب کیا جائے گا۔

اسپیکر ا یاز صادق نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے  خوشی کااظہار کیا اور کہا کہ  بات چیت غیر معمولی طور پر خوشگوار ماحول میں ہوئی ہے۔ حکومتی وفد کے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی  اس کی تصدیق کی اور بتایا کہ  ’پی ٹی آئی رہنماؤں نے ملک میں جمہوری استحکام کی بات کی ہے۔ اپوزیشن کا لہجہ سخت نہیں اور بہت سی چیزوں کو ان کی جانب سے سراہا گیا ہے۔ بات چیت کا خوشگوار ماحول میں ہونا بھی ایک مثبت پیش رفت ہے‘۔  مذاکرات کے دوسرے دور کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کاکہنا تھا کہ ’جب مذاکرات کے لیے کمیٹیاں بنی ہیں تو ظاہر ہے کہ رویہ تو ایسا ہے کہ حکومت مسائل کا حل چاہتی ہے۔یہ بات بھی ظاہر ہے کہ حکومت اور تمام اداروں کی آمادگی کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اب وقت آچُکا ہے کہ معاملات اور مسائل کو بات چیت   کے ذریعے  سیاسی اور جمہوری طریقے  سےحل کیا جائے۔ سب باتوں پر عمران خان کا ہی اختیار ہے۔عمران خان کے ہی حکم پر یہ مذاکرات شروع ہوئے ہیں تو اب آگے بھی عمران خان ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے  کیا  اور کیسے کرنا ہے‘۔

یہ تاثرات  اس لحاظ سے تو بہت مثبت اور حوصلہ  افزا ہیں کہ ملک کی بڑی سیاسی طاقتیں مل  بیٹھ کر تمام امور پر غور کرنا چاہتی ہیں اور ان پر بات چیت کا باقاعدہ آغاز ہوا ہے ۔ گزشتہ    دس گیارہ ماہ کے دوران حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان  دوری اور محاذ آرائی  کی صورت حال موجود تھی۔ اس بات چیت سے باہمی تعلقات  پر جمی برف پگھلنے لگے گی۔ اس سے پہلے  فریقین کے درمیان  کسی بھی قسم کی مواصلت اور باہمی احترام کا رویہ دیکھنے میں نہیں آ رہا تھا۔ مذاکرات  شروع ہونے کے بعد  ایک دوسرے کی اہمیت کو مانا گیا ہے۔  ملکی سیاسی ماحول میں یہ بجائے خود  ایک مثبت بات ہے۔  دوسری بات یہ  ہے کہ تحریک انصاف کے مطالبات اگرچہ سب کے سامنے ہیں کہ وہ کون سی باتوں پر اصرار کریں گے۔ تاہم ان مطالبات کو  باقاعدہ پیش کرنے پر رضامندی اور بات چیت میں ان پر بحث و مباحثہ کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچنے کا اشارہ  بھی پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے۔

تحریک انصاف تحریری اور باقاعدہ  طور پر جب  اپنے مطالبات پیش کرے گی تو دیکھنا ہوگاکہ حکومت اس معاملے میں کیا رعایت دیتی ہے۔ لیکن  صورت حال کا ایک پہلو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ تحریک انصاف  نے اپنے مطالبات محدود کیے ہیں۔  پہلے چار  یا پانچ مطالبات کی بجائے  اب ایک  یادو مطالبات  یعنی  عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی اور9 مئی و 26 نومبر کے واقعات کی عدالتی تحقیقات    ہی پیش کیے جارہے  ہیں۔  اس سے پہلے تحریک انصاف 26ویں ترمیم کی واپسی اور انتخابی دھاندلی کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ بھی کررہی  تھی۔  حتی کہ عمران خان کا یہ مؤقف بھی رہا ہے کہ اس حکومت سے بات چیت نہیں ہو سکتی ۔ وہ صرف  طاقت کے اصل مراکز سے بات کریں گے۔ واضح طور سے عمران خان نے اپنی یہ سخت پوزیشن تبدیل کی ہے۔ اگرچہ عمر ایوب نے مذاکرات سے پہلے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اب بھی موجودہ حکومت کو فارم  47 کی حکومت قرار دیا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے مذاکرات کو اہم قرار دیتے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی بات بھی کی۔  تحریک انصاف کے مؤقف اور طرز عمل میں یہ تبدیلی  بلاشبہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔

بات چیت آگے بڑھے گی تو دیکھنا ہوگا کہ حکومت اس  سیاسی مفاہمت کے لیے  کتنی گہرائی میں جانا چاہتی ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف   گزشتہ دنوں اڑان پاکستان پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے بھی اور اس  سے پہلے بھی دو باتوں پر بہت زور دیتے رہے ہیں۔ ایک  میثاق  معیشت یعنی معاشی معاملات میں تمام سیاسی پارٹیاں اتفاق رائے کر لیں تاکہ  مالی اصلاحات  کامنصوبہ آگے بڑھ  سکے جو پوری قوم کے مفاد  میں ہے ۔ اس کے علاوہ ان کا اصرار کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ دھرنوں و احتجاج کی سیاست نے ملک کا بہت نقصان کیا ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے ۔ جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے بین السطور  یہ اشارے دیے جاتےے ہیں کہ بات چیت میں ناکامی کی صورت میں احتجاج کے سوا اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا۔  یہ بھی دیکھنا  چاہیے کہ تحریک انصاف مذاکرات پہ راضی ہو گئی ہے ۔ یہ اقدام عمران خان کی ہدایت پر کیا گیا ہے۔  پارٹی لیڈرعمران خان سے  اجازت لے کر پھونک پھونک کر قدم  آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ طرز عمل پارٹی کی سنجیدگی  کا مظہر ہے۔  پارٹی قیادت نے  ضرور یہ سوچا ہوگا اور طے کیا ہوگا کہ مطالبات کے جواب میں حکومت کیا پیش کش کرسکتی ہے اور تحریک انصاف کس حد تک لچک  کا مظاہرہ کرے گی۔

اس پس منظر میں حکومت کی طرف  کوئی نہ کوئی مثبت پیش رفت ہونی چاہئے۔  حکومتی وفد کو معاشی معاملات میں وسیع تر تعاون کے علاوہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ تحریک انصاف کو  کیا سہولتیں  یا رعائتیں دے سکیں گے۔ اگر پی ٹی آئی کے دونوں  مطالبات کو حکومت کے لیے ایسی ہارڈ لائن سمجھ  لیا جائے جسے عبور کرنا ممکن نہیں ہے تو بھی میڈیا پر پابندیاں نرم کرنے،  انٹرنیٹ   کی سہولت میں اضافے  اور سیاسی کارکنوں کو غیر ضروری طور سے ہراساں کرنے کا طریقہ تبدیل کرنے جیسے  وعدے بات چیت کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کرسکتے ہیں۔  فریقین باہمی گفت و شنید سے کسی ایسی بنیاد پر ضرور متفق ہوسکتے ہیں جو فریقین کے لیے یکساں طور سے سود مند ہو ، اعتماد سازی میں معاون ہو اور ملک میں  مستقل اور پائیدار امن کا ماحول  قائم ہوسکے۔

بات  جب آگے بڑھے گی تو تحریک انصاف کو بھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ صرف ان مطالبات پر فوکس نہیں کر سکتی جس کا تعلق براہ راست اس پارٹی کے اپنے مفادات سے ہو بلکہ اسے کچھ ایسے معاملات پر بھی اتفاق رائے کرنا پڑے گا  جن کا تعلق ملک و قوم کی عمومی بہبود  و ترقی سے ہو۔  اس میں سب سے پہلے معاشی معاملات ہیں اور پھر امن و امان کی صورت حال ہے۔ انہی دو پہلوؤں کی طرف وزیر اعظم تواتر سے اشارہ کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے تحریک انصاف اگر کچھ یقین دہانیاں کرا سکے تو اسے کچھ نہ کچھ سپیس فراہم کی جاسکے گی۔  اس حوالے  سے البتہ ابھی تک تحریک انصاف کی طرف سے کوئی مثبت رائے سامنے نہیں آئی۔  وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ احتجاج کرنا ان کا حق ہے اور  پارٹی کسی صورت اس حق سے دست بردار نہیں ہوگی۔  البتہ اگر یہ ضمانت دے دی جائے کہ  احتجاج کرنے کا حق  درست ہے لیکن  حالات و واقعات کی مناسبت سے قیادت کو ہوشمندی کا مظاہرہ بھی کرنا چاہئے۔ سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کو  دیکھنا پڑے گا کہ  جن حالات میں  احتجاج کیا جاررہا ہے،  اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اس وقت تحریک انصاف کی سیاسی سپیس  محدود ہے۔ لیکن شاید مسلم لیگ  (ن) جو اس وقت حکومت میں ہے، کے لیے   بھی حالات بہت  ساز گار نہیں ہیں۔ حکومت کے لیے  ایک طرف تحریک انصاف کے ساتھ  ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا ضروری ہے تو دوسری طرف اسے حکومتی اتحاد میں  شامل سیاسی  پارٹیوں کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔  حکومت یا مسلم لیگ (ن) اگر اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوتی تو شہباز شریف کے لیے حکومت قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا ۔ ایسی صورت میں ان کے لیے  تعاون اور ملکی مفاد کی باتیں شا ید بے معنی ہوجائیں۔ بدقسمتی سے ملک کے  تمام سیاسی  عناصر  قومی معاملات کو اپنے اقتدار کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں۔ ان دونوں پہلوؤں کو علیحدہ کر کے دیکھنے کی روایت ابھی تک پاکستان میں سامنے نہیں آ سکی ہے ۔لیکن نئی سیاسی صورتحال میں اس روایت کا قائم ہونا بہت ضروری ہے۔

 تحریک انصاف کے لیے  ایک خاص  مشکل فوج کی سرد مہری اور  پارٹی کے  بعض اقدامات کے بارے میں اس کا سخت رویہ ہے۔  تحریک انصاف  نے  سانحہ 9 مئی کا جواب سیاسی طور پر تو  دیا  ہے لیکن عملی طور سے عدالتوں میں ابھی تک تحریک انصاف  یہ  ثابت نہیں کر سکی کہ وہ   9مئی اور  26 نومبر کو ہونے والے واقعات میں  قطعی طور سےبے قصور ہیں ۔ یا  پارٹی کو اس معاملہ میں پھنسایا گیا تھا۔  اس کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف خود اپنی صفوں میں از سر نو تنظیم پیدا  کرے اور جو عناصر سیاسی تشدد کے مرتکب ہوئے ہوں ، ان سے لاتعلقی  اختیا رکی جائے۔ اس طرح پارٹی اور اس کی قیادت کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں دور ہوسکیں گی۔   حکومت اور تحریک انصاف  کے مثبت طرز عمل سے پیدا ہونے والا اتفاق رائے ملک و قوم کے لیے بہتر ہوگا۔