دختر ایران
- تحریر فہیم اختر
- اتوار 05 / جنوری / 2025
24دسمبر کو زینب سعیدی نے سوشل میڈیا کے ذریعہ خوشخبری سنائی کہ دو سال کی محنت اور لگن کے بعد آخر کار انہوں نے حکومتِ ایران کی "مترجم رسمی " یعنی سرکاری طور پر اردو مترجم کا امتحان پاس کر لیا۔ میں نے زینب سعیدی کو" دختر ایران" مخاطب کر تے ہوئے ڈھیروں مبارک باد دی اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کافی لوگوں نے زینب سعیدی کو مبارک باد دی۔ تاہم یہاں یہ بات بھی بتانا اہم ہے کہ حکومتِ ایران کے مترجم کا رسمی امتحان ہر سال کی بجائے غیر معینہ وقفوں سے منعقد ہوتا ہے۔ زینب سعیدی نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے دس سال قبل سرکاری مترجم رسمی امتحان میں قسمت آزمائی تھی۔ لیکن محض ایک نمبر کی کمی کی وجہ سے انہیں کامیابی نہیں ملی۔ زینب سعیدی نے اس امتحان کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سرکاری اردو مترجم بننے کی ایک اہم وجہ یہ بتائی کہ اس کے بعد اب وہ اگر ایران میں کسی کو کوئی دستاویز فارسی سے اردو یا اردو سے فارسی میں ترجمہ کی ضرورت ہے، اور اس دستاویز کو کسی سفارت خانے یا یونیورسیٹی یا کسی اہم دفتر میں جمع کرانا ہو تو اس کے لئے زینب سعیدی اس کی تصدیق اور اس پر سرکاری مہر لگا سکتی ہیں۔
یہ 2015 کی بات ہے جب ترکیہ استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے سو سالہ جشن منایا تھا۔ جس میں دنیا بھر سے لگ بھگ اسّی مندوبین نے شرکت کی تھی۔ برطانیہ سے مجھے بھی شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ وہیں ہماری ملاقات ایرانی مندوبین سے ہوئی جس میں اردو ایم اے کی طالبہ زینب سعیدی بھی شامل تھیں۔ زینب سعیدی کی اردو سے محبت اور گفتگو کے منفرد اندازسے مجھے کافی خوشی ہوئی۔ یہ خوشی واقعی قدرتی ہے، کیونکہ جب کوئی خوبصورت اور شائستہ انداز میں اردو بولتا ہے تو دل کو سکون ملتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو اردو ایک دلکش اور مہذب زبان ہے اور اس کا حسن بولنے والے کی شفاف ادائیگی اور الفاظ کے چناؤ سے مزید نکھر کر سامنے آتا ہے۔
اس کے بعد زینب سعیدی سے میری ملاقات کلکتہ، ممبئی، جے پور اور دلی کے کانفرنس میں ہوئی۔ ان ہی کانفرنسوں میں میں نے پہلی بار لوگوں سے زینب سعیدی کو" دختر ایران" مخاطب کرتے ہوئے سنا۔ گاہے بگاہے زینب سعیدی سے رابطہ ہوتا اور ہر بار زینب سعیدی مجھے ایران آنے کی دعوت دیتی۔ لیکن لندن کی مصروف زندگی نے مجھے اب تک ایران کے سفر سے محروم رکھا ہے۔ اس کے علاوہ دفترکی مصروفیت کی وجہ سے ان دنوں میں بمشکل ہی کلکتہ کا مختصر سفر کرپا رہا ہوں۔
کہیں میں نے "دختر ایران" ایک کہانی پڑھی تھی۔ شب کی خاموشی میں ایک نوجوان لڑکی دور پہاڑوں کے دامن میں بیٹھ کر چاند کو تک رہی تھی۔ اس کا نام " سورنا " تھا اور وہ ایران کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی رہنے والی تھی۔ اس کی آنکھوں میں خواب تھے۔ مگر ان خوابوں پر وقت کی دھول جم چکی تھی۔ سورنا جانتی تھی کہ اس کے گاؤں کے لوگ اپنی زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ مگر ان پر مصیبتوں کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایک دن گاؤں میں خبر پھیلی کہ شہر کے بڑے لوگ اس زمین کو خریدنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں ایک بڑی فیکٹری بنائی جا سکے۔ گاؤں والوں کے پاس نہ تو پیسہ تھا نہ طاقت، مگر ان کے پاس اپنے اجداد کی زمین کی محبت تھی۔ سورنا نے گاؤں کے بزرگوں سے بات کی اور کہا " یہ زمین ہماری ماں کی طرح ہے۔ ہم کیسے اپنی ماں کو بیچ سکتے ہیں؟"
لیکن لوگ مایوس ہوچکے تھے۔ سورنا نے فیصلہ کیا کہ وہ خود شہر جائے گی اور ان لوگوں سے بات کرے گی۔ اس نے اپنی ماں کا پرانا لباس پہنا، جس پر ایران کی روایتی کڑھائی کی گئی تھی اور اپنے بالوں کو ایک چادر میں لپیٹ لیا۔ وہ جانتی تھی کہ اسے اپنی بات کہنے کے لیے دلیر ہونا پڑے گا۔ شہر کے دفتر میں جب اس نے اپنی بات کہنی شروع کی تو لوگ اس کی ہمت پر حیران رہ گئے۔ اس نے کہا آپ کو یہ زمین ایک ویران جگہ نظر آتی ہے۔ مگر یہ ہمارے لیے ہماری شناخت ہے۔ اگر آپ اس زمین کو چھین لیں گے، تو ہم صرف اپنی زمین ہی نہیں، اپنا وجود بھی کھو دیں گے۔ اس کی باتوں میں اتنا درد اور سچائی تھی کہ وہاں موجود لوگ خاموش ہوگئے۔ شہر کے افسر نے کہا،" ہم آپ کی زمین نہیں چھینیں گے۔ مگر ہمیں بتائیں کہ ہم گاؤں کے لوگوں کی مدد کیسے کرسکتے ہیں "۔ سورنا نے کہا، " ہمیں ترقی چاہیے، مگر ایسی ترقی جو ہماری ثقافت اور زمین کو محفوظ رکھے"۔ اس دن کے بعد، سورنا "دختر ایران" کے نام سے مشہور ہوگئی۔ اس نے اپنے گاؤں کے لوگوں کو خود مختاری کے راستے پر ڈالا اور ان کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا اسکول اور دستکاری کا مرکز قائم کیا۔ سورنا جانتی تھی کہ ہر لڑکی میں ایک " دختر ایران " چھپی ہوتی ہے جو وقت آنے پر اپنے خوابوں اور اپنی زمین کے لیے لڑ سکتی ہے۔ زینب سعیدی نے بھی اپنی محنت اور لگن سے اردو مترجم کا امتحان پاس کرکے سورنا کی بات کو درست کر دکھایا۔
یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ اردو زبان کا آغاز برصغیر میں ہوا، جہاں مختلف ثقافتیں اور زبانیں مل جل کر ایک نئی زبان کی تشکیل کا سبب بنیں۔ فارسی ادب، خاص طور پر شاعری، اردو کی ترقی کے لیے ایک رہنما اصول ثابت ہوا۔ فارسی الفاظ، تراکیب اور اظہار کے انداز آج بھی اردو زبان کا لازمی حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ ایرانی ادب اور فلسفہ اردو زبان میں واضح طور پر جھلکتا ہے۔ حافظ، سعدی، رومی اور فردوسی جیسے ایرانی شاعروں کے خیالات اور اشعار اردو کے شاعروں کے لیے ہمیشہ ایک تحریک ہے۔ غالب، اقبال اور دیگر اردو شعرا نے فارسی ادب سے بہت کچھ سیکھا اور اپنی شاعری میں اس کا عکس دکھایا ہے۔
اردو زبان واقعی ایک خوبصورت اور مقبول زبان ہے۔ اس کی دلکشی اس کے الفاظ کی نزاکت، محاوروں کی گہرائی اور شاعری کی مٹھاس میں چھپی ہوئی ہے۔ اردو نے صدیوں کے سفر میں مختلف زبانوں جیسے فارسی، عربی، ترکی اور ہندی کے الفاظ کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ جس نے اسے ایک منفرد اور شاندار رنگ دیا ہے۔ یہ زبان صرف بات چیت کا ذریعہ نہیں بلکہ جذبات کو بیان کرنے کا ایک دلنشیں انداز بھی ہے۔ شاعری، نثر اور ادب میں اردو نے ایسا مقام حاصل کیا ہے جو اسے دنیا کی بڑی زبانوں میں شمار کرتا ہے۔ غالب، اقبال اور فیض جیسے شاعروں نے اسے عالمی سطح پر مزید مقبول بنایاہے۔ آج بھی اردو زبان نہ صرف بر صغیر بلکہ دنیا بھر میں بولی، سمجھی اور پسند کی جاتی ہے۔ یہ زبان اپنے بولنے والوں کے دلوں میں محبت اور ثقافت کی علامت بن کر زندہ ہے۔جس کی عمدہ مثال دختر ایران زینب سعیدی ہیں جو اردو زبان سے کافی محبت کرتی ہیں۔
زینب سعیدی کی اردو اتنی خوبصورت ہے کہ ان کا حسن اور بھی نکھر آیاہے۔ یوں بھی کسی کی اردو سن کر ایسا لگتا ہے جیسے کوئی میٹھا ساز بج رہا ہو۔ کیونکہ یہ زبان نہ صرف الفاظ کا مجموعہ ہے بلکہ محبت، تہذیب اور جذبات کا ایک حسین امتزاج بھی ہے۔ اس کے علاوہ زینب سعیدی کی اخلاق اور نرم گوئی نے ان کی شخصیت کو اور بھی نکھار دیا ہے۔ ان کے خوبصورت الفاظ اور شائستہ رویہ، وہ چراغ ہیں جو دلوں کو روشن کرکے تعلقات کو مضبوط بنا رہے ہیں۔
ایک بار زینب سعیدی نے مجھے دلچسپ بات بتائی کہ فہیم صاحب، ہندوستان سے ایک صاحب، مجھے بھارت بطور شاعرہ آنے کی دعوت دے رہے ہیں، جبکہ میں شاعرہ نہیں ہوں۔ جب میں نے ان سے کہا کہ میں شاعرہ نہیں ہوں تو انہوں نے کہا، آپ اس کی فکر نہ کریں، ہم آپ کو غزل لکھ کر دیں گے۔ بس آپ کو اسٹیج پر پڑھنا ہے اور پھرہم آپ کو ہندوستان گھمائیں گے۔ تاہم زینب سعیدی نے ان صاحب سے کہا کہ میں شاعرہ نہیں ہوں تو میں ایسا نہیں کر سکتی۔ اور یہ میرے اصول کے خلاف ہے۔ اس طرح زینب سعیدی نے یہ پیش کش کو ٹھکرادی۔ زینب سعیدی کی اس بات سے میرا ذہن اس غیر ملکی متشاعروں کی طرف گیا کہ کیسے آج کل ہندوستان اور دبئی کے مشاعروں میں ایک خاتون " مشاعرے کی آئٹم گرل " بن کر شرکت کر رہی ہے۔ مختلف ذرائع سے یہ بھی علم ہوا ہے کہ محترمہ بھاری لفافہ بھی مانگتی ہے۔
جب کسی کی باتوں میں نرمی، لہجے میں مٹھاس اور رویے میں عزت شامل ہو تو اس کا اثر دل پر ہمیشہ کے لیے نقش ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ نہ صرف اپنے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں بلکہ دوسروں کے دلوں میں بھی خاص جگہ بنا لیتے ہیں۔ حسن ظاہری ہو یا باطنی، اخلاق اس کی اصل خوبصورتی ہے اور نرم گوئی وہ جادو ہے جو سب کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اور یہ بات میں نے دختر ایران زینب سعیدی میں پائی ہے۔ میں دختر ایران زینب سعیدی کو ڈھیروں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں خوب ترقی دے۔ آمین