شہباز شریف کے مسائل اور بحران جاری رکھنے پر ’اتفاق‘
- تحریر سید مجاہد علی
- اتوار 05 / جنوری / 2025
لگتا ہے ملک میں شہباز شریف کی حکومت کے مسائل اور مشکلات میں کمی واقع ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اسے ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کسی سیاسی مفاہمت تک پہنچنے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف حلیف پارٹیوں کو بھی مطمئن اور خوش رکھنا ضروری ہے۔ شہباز حکومت ان دونوں مقاصد میں مسلسل ناکام ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف نے مذاکرات کے حوالے سے بے یقینی کا اظہار کیا ہے اور نئی شرائط پیش کی ہیں تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی نئی شکایات کی فہرست سامنے آئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک پر پھر حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے معاملات میں مشاورت کرنے اور فیصلہ سازی میں حصہ دینے سے انکار کیا تو پیپلز پارٹی کے لیے موجودہ حکومت کی تائید جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا ۔ اگرچہ یہ بیان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کی طرف سے نہیں آیا لیکن دوسرے درجے کی قیادت بھی اگر ایسی کوئی وارننگ دیتی ہے جس میں خاص منصوبوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ نشان دہی کی جائے کہ اگر حکومت ، سندھ یا پیپلز پارٹی کے مفادات کا خیال رکھنے میں ناکام رہے گی تو باہمی تعاون جاری رہنا مشکل ہوجائے گا۔ اسے سنجیدہ مسئلہ سمجھنا چاہئے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ حکومت کی معاونت کرنے اور حلیف پارٹی ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کوفیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جاتا ۔
دریں حالات ایسی شکایات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔ پہلے بھی دیکھا جا چکا ہے کہ متعدد مواقع پر پیپلز پارٹی کے لیڈر شکایت کرتے رہے ہیں اور اس حوالے سے دونوں فریقین کی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں ۔ معاملات درست کرنے کی کوششیں بھی دیکھنے میں آتی رہی ہیں۔ لیکن موجودہ صورتحال میں جبکہ ملک میں سیاسی ماحول بہتر بنانے ، معاشی فیصلوں کے لیے حالات سازگار کرنے اور تمام فریقین کو ایک پیج پر لانے کے عمل کا آغاز کیا گیا ہے۔ یعنی حکومت کی طرف سے ایک ایسی کمیٹی بنائی گئی ہے جو تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر چکی ہے ۔ حکومتی اور تحریک انصاف کی کمیٹیوں کے درمیان ابھی تک دو ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ان کے بارے میں دونوں طرف سے مثبت اشارے دیے گئے تھے۔ اس ماحول میں اگر حکومت کی اپنی حلیف پارٹی ، اس سے مسلسل شکایات کر رہی ہے اور یہ بتا رہی ہے کہ شہباز شریف کی حکومت اسے فیصلوں میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھتی تو نہ صرف حکومت کے رویہ کے بارے میں بلکہ اس کے ارادوں کے حواالے سے بھی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
سوال کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں کیا واقعی شہباز شریف کی حکومت کوئی ایسا پلیٹ فارم تیار کرنا چاہتی ہے جو سیاسی افہام و تفہیم کے نتیجے میں قائم ہو اور معاشی منصوبوں کے لیے بعض اصولوں پر اتفاق رائے ہو سکے، سب سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو گنجائش اور کچھ سہولتیں دینے پر آمادہ ہوں۔ اور اپنی سخت پوزیشن سے گریز کرکے کچھ ایسی رعائتیں دے سکیں تاکہ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ایسی فضا پیدا ہو جو سب کے لیے مناسب اور سود مند ہو۔ موجودہ و حالات میں لگتا ہے کہ شاید زبانی دعوؤں سے قطع نظر کہیں پر یہ حقیقی خواہش موجود نہیں ہے کہ ملک میں حالات بہتر ہوجائیں اور بحران کا خاتمہ ہو جائے ۔ مختلف سیاسی عناصر کے اختیار کیے گئے رویہ اور طرز عمل سے تو یہ لگتا ہے کہ تمام سیاسی فریقین کسی نہ کسی طرح اس بحران کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔
شہباز شریف کے لیے بحران جاری رکھنا شاید یوں ضروری ہو تاکہ وہ فوج پر یہ دباؤ ڈال سکیں کہ دیکھیں اگر میرے ساتھ آپ کا تعاون کمزور ہوا تو اس سے آپ ہی کے منصوبے متاثر ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) بلکہ شہباز شریف ہی ایک ایسی شخصیت ہے جو اس وقت فوج کے منصوبوں کو پوری طرح سے عمل درآمد کرانے میں معاونت کر رہی ہے ۔دوسری طرف پیپلز پارٹی اپنی جگہ پر یہ سمجھتی ہے کہ اگر اس نے حکومت کے ساتھ زیادہ نرم رویہ اختیار کیا تو شاید حکومت اتنی مستحکم ہو جائے گی کہ اسے پھر پیپلز پارٹی کے تعاون کی ضرورت نہ رہے۔ بلکہ حکومت شاید کوئی ایسے منصوبے مکمل کرنے میں کامیاب ہو جائے جو آئندہ انتخابات میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی سیاسی کامیابی کے خواب کی تکمیل مشکل بنا دیں۔ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ کسی مرحلے پر اسے ملک بھر میں اتنی نمائیندگی حاصل ہوسکے کہ وہ اپنا وزیر اعظم منتخب کرانے میں کامیاب ہوسکے۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمی کا سب سے اہل اور طاقت ور امید وار سمجھتی ہے۔
ماضی میں بھی آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے قائدین یہ خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بننا چاہیے ۔ پارٹی کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کو ایک اہل اور قابل قبول وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یعنی کہ بلاول بھٹو زرداری کو شہباز شریف کے بہتر متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی ویسی ہی حمایت کی بدولت جو اس وقت شہباز شریف کو حاصل ہے، پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری بہت بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ اگر اس مؤقف کو تسلیم کر لیا جائے اور پیپلز پارٹی ایسی صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے جہاں شہباز شریف کی حکومت سیاسی طور سے تنہا اور مجبور ہو جائے تو اسٹیبلشمنٹ کو بھی یقیناً اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا ۔ ایسے میں شاید اسے پیپلزپارٹی کو ایک موقع دینا پڑے ۔
لیکن اس صورت میں ضروری ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے پاس مسلم لیگ (ن) کی طرح متبادل سیاسی و پارلیمانی حمایت موجود ہو ۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ شہباز شریف کو اگرحکومت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے یا انہیں عدم اعتماد کا سامنا ہوتا ہے ، تو وہ مجبور ہوکر آئیندہ حکومت سازی میں تو پیپلز پارٹی کی حمایت کریں گے۔ اور یہ اعلان کریں کہ ٹھیک ہے، اگر ہم نہیں تو آپ حکومت بنا لیں تاکہ تحریک انصاف کا راستہ رکا جا سکے ۔ اس لیے سوچنا چاہئے کہ ایسے تنازعہ میں پیپلز پارٹی کے پاس کیا آپشن ہوں گے۔ موجودہ حکومت کو دھمکیاں دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کو خود بھی اس بارے میں حقیقت پسندانہ انداز میں سوچنا چاہیے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے پاس ایک ہی آپشن ہوگاکہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ کچھ ایسا تعاون استوار کر سکے جو ایک نئی حکومت کی بنیاد بن سکے ۔ شہباز شریف کو ہٹا کر ایک ایسی حکومت قائم ہو جس میں بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم ہوں اور تحریک انصاف ان کی حمایت کر رہی ہو ۔ گزشتہ سال انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی، تحریک انصاف کے ساتھ ایسے تعاون کی خواہش ظاہر کرچکی تھی لیکن ناکام ہوئی تھی۔ اب بھی دونوں پارٹیوں کے درمیان قربت میں اضافہ نہیں ہؤا۔
اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے کافی واضح اشارے سامنے آ چکے ہیں کہ تحریک انصاف کو اس وقت تک کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی جب تک وہ اپنے غلطیوں میں نادم نہ ہو۔ 9مئی اور 26نومبر کے حوالے سے وہ فوج کو مطعون کرنے کی بجائے خود اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کریں۔ تحریک انصاف اس معاملے میں کسی قسم کی لچک دکھانے پر تیار نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے 19 افراد کو معافی دے کر رہا کیا گیاتھا۔ سانحہ 9مئی کے الزامات کے بعد سزا ملنے پر ان لوگوں کی معافی کے درخواست آرمی چیف نے قبول کی تھی۔ معافی ناموں میں ان لوگوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور مستقبل میں ایسی غلطی نہ دہرانے کا وعدہ کیا تھا ۔ لیکن رہائی کے بعد ان کا چیف منسٹر ہاؤس پشاور میں خیر مقدم کیا گیا ۔ وہاں انہوں نے وہی نعرے لگائے جو تحریک انصاف کے عام لیڈر لگاتے ہیں اور فوجی عدالتوں میں مقدمات کو مسترد کر دیا ۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف خود اپنے سیاسی امکانات کم کرتی جا رہی ہے ۔
شاید اسی صورتحال کو سمجھتے ہوئے اب تحریک انصاف کے مذاکراتی وفد میں شامل اسد قیصر نے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک اصل بااختیار لوگوں کا نمائندہ بات چیت میں شامل نہیں ہوگا تو ایسے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ سازی کااصل اختیار رکھنے والوں کی شمولیت کے بغیر بات چیت سے کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے ان کا یہ اشارہ اسٹبلشمنٹ کی طرف ہے۔ تحریک انصاف پہلے بھی حکومت کی بجائے اسٹبلشمنٹ یا فوج کے ساتھ بات چیت پر اصرار کرتی رہی ہے لیکن فوج نے ایسی کسی درخواست کو قابل غور نہیں سمجھا تھا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی نے اپنا رویہ نرم کیا تھا لیکن اب پارٹی ایک بار پھر پرانے مؤقف کی طرف لوٹنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسد قیصرنے یہ انہونی شرط بھی رکھی ہے کہ مذاکرات کے دوران عمران خان سے کسی تعطل کے بغیر رابطہ رکھنے کی ضمانت دی جائے ورنہ یہ مذاکرات جاری نہیں رہ سکتے۔
حکومتی کمیٹی میں شامل سینیٹر عرفان صدیقی نے ان شرائط پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے طے شدہ طریقہ کے مطابق ابھی تک اپنے مطالبات تحریری طور سے پیش نہیں کیے۔ اب بات چیت کے لیے نئی شرائط سخت ہیں جن سے پورا مصالحتی عمل ہے خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ گو کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا انجام کیا ہوگا لیکن اس حوالے سے بداعتمادی کی موجودہ صورت حال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بظاہر کوئی بھی فریق اعتماد سازی کے لیے ایک قدم آگے بڑھانے پر راضی نہیں ہے۔
ان حالات میں حکومت ہی نہیں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے لیے بھی امکانات محدود رہیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو سمجھنا چاہئے کہ بحران جاری رکھنے سے نہ ملک کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی سیاسی عمل کے لیے یہ خوش آئیند صورت حال ہوگی۔