تحریک انصاف کی سیاست اور قانون کی عملداری

پاکستان تحریک انصاف نے متعدد بار  کہاہے کہ حکومت نے عمران خان کو اڈیالہ جیل  سے  بنی گالا  ان کی رہائش  گاہ  میں منتقل کرنے  کی پیشکش  کی ہے۔ پارٹی کا  دعویٰ رہا ہے کہ اس طرح حکومت عمران خان سے کچھ  ’رعائتیں‘ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن  اس کے ساتھ ہی دعویٰ کیاجاتا ہے کہ عمران خان اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں اور  کسی بھی قسم کی کوئی کمزوری  نہیں دکھائی گئی۔

ایسا ہی دعویٰ اب عمران خان کی ہمشیرہ  علیمہ خان اور تحریک انصاف کے دیگر لیڈروں کی طرف سے کیا گیا ہے کہ یہ حکومتی پیشکش در حقیقت  خیبر پختون خوا کےوزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے  ذریعے عمران خان  تک پہنچائی گئی تھی۔  جسے ظاہر ہے انہوں نے مسترد کر دیا ۔  حکومت یا سرکاری ذرائع کی طرف سے ان دعوؤں پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ گویا اس’ خبر‘  کو اتنا اہم بھی نہیں سمجھا گیا کہ اس پر  توجہ دی جاتی یا اس کی تردید کرنے کی کوشش کی جاتی ۔  ایسی افواہ نما خبریں درحقیقت اسی قابل ہوتی ہیں کہ انہیں اہمیت نہ دی جائے کیوں کہ وہ عام طور سے جھوٹ پر  مبنی ہوتی ہیں اور اس سے کوئی خاص پیغام  طاقت ور حلقوں تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔

  اس  خبر کے تناظر  میں بھی  یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے کون سی شرائط پر معاہدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ بدنصیبی سے تحریک انصاف کا  بیانیے  اور مطالبات  میں کوئی اصولی بات شامل نہیں ہے۔ بلکہ کسی  نہ کسی صورت سے عمران خان کو ریلیف دلانے کی خواہش سامنے لائی جاتی ہے۔   یا پھر تحریک انصاف کو  اپنی  تنظیمی اور سیاسی غلطیوں کی وجہ سے جن مشکلات کا سامنا ہے، ان میں سے نکلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔   ایسے میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ملک میں جہاں جمہوری نظام راسخ کرنے کا  سیاسی تجربہ کیا جا رہا ہو  ،جمہوریت  لانے کے دعوے کیے جاتے ہوں  اور جس ماحول میں خود  تحریک انصاف  اپنے آپ کوحقیقی جمہوریت   کا سب سے بڑا داعی  بنا کر پیش کررہی ہو، کیا اس ملک میں کسی ایک شخص کو یہ  حق دینا چاہیے کہ وہ جب چاہے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے اور جب چاہے وہ اس سے نظر انداز کر کے  آگے بڑھ جائے؟

عمران خان متعدد معاملات میں غیر قانونی حرکتوں میں ملوث رہے ہیں ۔ اس کا فیصلہ بہرحال حتمی طور سے عدالتی نظام ہی کو کرنا ہے۔ لیکن بدنصیبی سے پاکستان کا عدالتی نظام اتنا کمزور اور ناقص ہے کہ حکومتیں اور انتظامی ڈھانچہ بھی حسب خواہش اس سے کھیلتا ہے۔  اور جو لوگ اس بنیاد پر سیاست کرنا چاہتے ہیں وہ بھی عدالتی نظام کو انتظامیہ کا آلہ کار قرار دے کر اس کے خلاف مہم جوئی کا شوق پورا  کرلیتے ہیں۔   اپنے جرائم کو ناقص عدالتی نظام کی آڑ میں چھپانے کا  ہتھکنڈا استعمال کیا جاتا ہے۔ اصولی طور پر عمران خان کے خلاف جو  بھی مقدمات ہیں ، ان کے فیصلے جلدی ہونے چاہئیں۔   ناموافق  فیصلوں کے  خلاف اپیلوں پر جلد  حتمی عدالتی  احکامات سامنے آئیں تاکہ پاکستان  موجودہ مشکل اور غیر یقینی صورتحال سے باہر نکل سکے۔  اور یہ بھی واضح ہو سکے کہ عدالتیں خود مختاری سے کام کررہی  ہیں۔ جبکہ   سیاست دان پالیسی  بنانے اور حکومت سازی کے معاملے میں اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔  لیکن جس ملک میں سیاست دان اپنی سیاسی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے خود کو قانون سے  ماوراسمجھنے کا تصور عام کریں گے یا یہ خواہش رکھیں گے کہ ان کو قانون سے بالا سمجھا جائے ۔ قانون دوسرے لوگوں  (یعنی عوام)کے لیے ہوتا ہے اور کسی ایک خاص لیڈر  یا ایک خاص پارٹی کی غیر قانونی حرکات  پر اس کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔   تو ایسے ملک میں قانون کی عملداری تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔ اس کا مظاہرہ ہم پاکستان میں دیکھتے رہے ہیں۔

 عمران خان  کا رویہ یا تحریک انصاف کاموقف  یہی رہا ہے  کہ  انہیں سیاسی مقدمات میں  پھنسایاگیا ہے۔  ان کے خلاف سارے کے سارے مقدمات  بے بنیاد ، غیر قانونی اور غلط ہیں۔  اگر ان  سب باتوں کو  مان لیا جائے تو بھی عمران خان کو یہ حق بہرحال نہیں دیا جا سکتا کہ اگر  ان کے خلاف کسی غیر قانونی حرکت کا  شبہ سامنے  آتا ہے یا کوئی ثبوت عدالت پر پیش کیا جاتا ہے تو وہ اس پر  عدالتی نظام میں انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی بجائے،  اپنی مقبولیت اور سیاسی پوزیشن کو عذر بنا کر اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ طریقہ نہ تو قانونی ہوگا اور نہ ہی جمہوری روایت کے مطابق کہا جائے گا۔ اگر ملک میں جمہوریت چاہیے تو پھر سیاستدانوں کو بھی اسی قانون کے تحت جواب دہ ہونا پڑے گا جس کے تحت عام شہری  اپنی صفائی  پیش کرتا ہے۔

اس اصول کا اطلاق در حقیقت عمران خان کی قید  یا 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر بھی ہونا چاہیے۔  پاکستان تحریک انصاف نے  ان دنوں میں اگر سیاسی احتجاج کیا تھا اور اس کے کارکن  کسی توڑ پھوڑ میں شامل نہیں تھے  اوران کی طرف سے کوئی غیر قانونی حرکت نہیں کی گئی تھی تو پھر انہیں اس بات پر بھی اعتبار کرنا چاہیے ملک کی عدالتیں انصاف کریں گی،  نظام قانون ان کا ساتھ دے گا اور   منصف  شواہد کو دیکھ کر میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کریں گے ۔ اگر  عمران خان یا تحریک انصاف اپنے بارے میں اس اصول کو نہیں مانتے۔  بلکہ اس بات پر اصرار کرتے رہیں گے کہ  ان کے معاملات کے لیے خصوصی عدالتی کمیشن بنایا جائے۔  ایسا عدالتی کمیشن جس میں ان کی مرضی کے جج شامل ہوں ، ایسے جج جن کے بارے میں انہیں یہ خو ش گمانی ہے کہ وہ ان کے حق میں فیصلے دیں گے۔ پھر اسے نہ تو انصاف کے  تقاضےپورے کرنے کا طریقہ سمجھا جائے گا اور نہ ہی اس سے کوئی جمہوری  مقصد حاصل ہوگا۔

 دنیا بھر میں  دیکھا جارہا  ہے کہ  مقبولیت پسند لیڈر  نعروں کی بنیاد پر  آگے بڑھنا  چاہتے ہیں۔ کسی سسٹم کی کمزوری کی  وجہ سے پیدا ہونے والی  عوامی محرومیوں کی بنیاد پر چند نعرے ایجاد کیے جاتے ہیں۔ پھر عوامی مقبولیت کے سہارے  اپنی خواہشات  مسلط کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔  ایسے میں یہی عذر پیش کیا جاتا ہے کہ متعلقہ لیڈر کو عوامی مقبولیت حاصل ہے اور وہ عوام کی زبان بول رہا ہے۔ اس کی سب سے اہم مثال اس وقت امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی اور ان کی طرف سے ایسے لا یعنی اور اشتعال انگیز بیانات ہیں جن سے اس وقت پورے دنیا میں ایک عجیب سنسنی خیز کیفیت پائی جا رہی ہے۔  ڈونلڈ ٹرمپ  ڈنمارک کے حصے گرین لینڈ پر قبضہ کرنا ، امریکہ کا حق سمجھتے ہیں  ، کبھی وہ کینیڈا کو امریکہ کی  51 ویں  ریاست بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کبھی  پاناما کینال پر تنازعہ  طاقت سے حل کر کے اس پر قبضہ بحال کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دوسری طرف ان کے قریب ترین ساتھی اور دنیا کے امیر ترین  شخص  ایلون مسک یورپ کی انتہا پسند دائیں بازو کی سیاسی تنظیموں اور تحریکوں کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔ وہ  یورپی حکومتوں  اور لیڈروں کے خلاف  پروپیگنڈے کے لیے اپنے ایکس پلیٹ فارم کی طاقت  استعمال کر رہے ہیں ۔

یہ صورتحال پوری دنیا کے لیے ناقابل قبول ہے۔  یہ رویے  ان اصولوں سے متصادم ہیں جن  کی بنیاد پر جمہوری نظام کام کرتا ہے۔  ایلون مسک اور ٹرمپ جیسے لوگ اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقیناً اس سے جمہوریت کو اور جمہوری روایت کو شدید نقصان پہنچے گا ۔ اسی لیے یورپ میں ان کے خلاف مزاحمت کا  ماحول دیکھنے میں آ رہا ہے۔   اسی طرح  پاکستان میں بھی اس  اصول کا اطلاق ہونا چاہئے۔ کوئی بھی سیاسی لیڈر  خواہ کتنا ہی مقبول ہو،  اگر وہ عوام میں مقبولیت کے ذریعے جمہوری روایت کو لے کر آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اس کے پاس کوئی ایجنڈا ہونا چاہیے۔ اسے  ملکی مسائل کے بارے میں سنجیدہ گفتگو کرنی چاہئے اور اس کا رویہ  اشتعال انگیزی کی بجائے مفاہمت اور معاملہ فہمی پر استوار ہونا چاہئے۔

گزشتہ دو سال کے دوران   تحریک انصاف  کی کار کردگی دیکھی جائے تو انہوں نے کسی بھی سیاسی  یا معاشی مسئلے پر  کوئی ٹھوس رائے نہیں دی۔  ملک کو درپیش اسٹریٹیجک مسائل پر کوئی بات نہیں  کی۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے کوئی حکمت عملی یا پالیسی پیش نہیں کی۔   سنجیدہ قومی  معاملات پر نہ تو  کوئی ذمہ دارانہ بیان  سامنے آیا ہے اور نہ  ہی یہ بتایا گیا  ہے کہ اگر پارٹی اقتدار  میں ہو تو وہ ان مسائل کو کیسے حل کرے گی۔  پارٹی لیڈروں کے سارے بیانات اپنے لیڈر کی رہائی اور تحریک انصاف کی اقتدار میں واپسی کے گرد گھومتے ہیں۔  یہ رویہ نہ تو جمہوری ہے ، نہ ہی  قابل عمل اور  نہ ہی  زیادہ دیر تک قابل  قبول رہے گا ۔ یقیناً  عمران خان کو آج اپنی نام نہاد مزاحمت کی بنا پر مقبولیت حاصل ہے لیکن اس مقبولیت کی  بس اتنی اوقات ہے کہ تحریک انصاف  عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ میں  ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کا انتظار کررہی ہے۔ یہ صریحاً ایک علیحدہ معاملہ ہے کہ پارٹی کا یہ خواب کیسے اور  کس حد تک پورا ہوتا ہے ۔  لیکن تحریک انصاف کو اس بات کا جواب ضرور دینا چاہئے  کہ اگر ٹرمپ جیسا کوئی امریکی صدر  عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان کی خود مختاری کو چیلنج کرے تو کیا تحریک انصاف اور عمران خان،  اس ملک دشمن رویے اور دھمکی کا ’خیر مقدم ‘ کریں گے؟

 تحریک انصاف کو ضرور سوچنا چاہئے کہ  کیا پاکستان کی سالمیت، خودمختاری اور قانون کی بالادستی کو ایک فرد کی آزادی کے لیے داؤ پر لگایا جا سکتا ہے؟ اس قسم کی صورتحال صرف پاکستان کے سیاسی نظام کے لیے ہی  نہیں بلکہ قومی وقار اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ سیاست میں اصولوں کی پاسداری، قانون کی بالادستی، اور جمہوری اقدار کی حفاظت ہر سیاسی جماعت اور رہنما کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہیے۔  تاکہ ملک ایک مستحکم اور خودمختار حیثیت میں آگے بڑھ سکے۔