امریکہ کا سزا یافتہ صدر
- تحریر سید مجاہد علی
- جمعرات 09 / جنوری / 2025
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے ہیں، انہیں جمعہ کے روز نیویارک کی ایک عدالت سےسزا سنائی جائے گی۔ اس طرح ٹرمپ پہلے امریکی صدر بن جائیں گے جو اپنے عہدے پر سرفراز ہوتے وقت سزا یافتہ مجرم قرار پاچکے ہوں گے۔ یہ سزا 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ایک سابق پورن اسٹار اسٹورمی ڈینئیلز کے ساتھ جنسی تعلق کو چھپانے کے لیے ادا کیے جانے والے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر کے بارے میں پیدا ہونے والے تنازعہ پر سنائی جارہی ہے۔
نیویارک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ٹرمپ کی قانونی ٹیم کی اس درخواست کو مسترد کردیا ہے کہ سزا سنانے کا اعلان مؤخر کردیا جائے۔ نیویارک کی ایک عدالتی جیوری نے مئی میں اس معاملہ میں عائد کیے گئے 34 الزامات میں ٹرمپ کو قصور وار قرار دیا تھا۔ مقدمے کی نگرانی کرنے والے جج جوان مرچن نے گزشتہ ہفتے 10 جنوری کو اس مقدمہ میں سزا سنانے کا اعلان کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کو بنفس نفیس یا بذریہ ویڈیو لنک پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیوری ٹرمپ کو قصور وار قرار دے چکی ہے اور ان کے پاس سزا سنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ جج مرچن کا کہنا تھا کہ سزا سنانا مناسب ترین طریقہ ہوگا تاکہ متاثرہ فریق اس معاملہ میں اپیل کا راستہ اختیار کرسکے۔ اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش تھی کہ انہیں صدارتی استثنیٰ کا حق دیا جائے یا ان کے صدارتی دورانیہ میں سزا سنانے سے گریز کیا جائے۔ البتہ جج مرچن کے علاوہ نیویارک کی سپریم کورٹ نے بھی اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا۔
عدالتی جیوری کی طرف سے قصور وار قرار دیے جانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پہلے امریکی صدر بن چکے ہیں جو سزا یافتہ ہیں۔ خود پر الزام ثابت ہونے کے بعد ہی وہ نومبر میں امریکی صدر منتخب ہوئے تھے۔ اب جمعہ کے روز انہیں جج کی طرف سے باقاعدہ سزا سنائی جائے گی۔ عدالت کے جج اس سے پہلے یہ واضح کر چکے ہیں کہ شاید صدر ٹرمپ کو جیل میں قید کی سزا نہیں دی جائے گی۔ اس میں ایک تو ان کی عمر کے علاوہ عہدے کا لحاظ کیا جائے گا۔ شاید ان پر کوئی بھاری جرمانہ بھی عائد نہیں ہوگا۔ انہیں عدالت سے کسی نہ کسی قسم کی کوئی علامتی سزا ملے گی۔ اس سزا کی قانونی اور سیاسی اہمیت ہی کی وجہ سے ٹرمپ کے وکلا اس پر فیصلہ مؤخر کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
یوں تو سزا ملنے یا نہ ملنے سے ٹرمپ کی مقبولیت یا ان کے سیاسی بیانیے اور طرز عمل میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ کسی اخلاقی اور جمہوری قدر کو نہیں مانتے ۔ یہاں تک کہ الیکشن ہار نے کے بعد وہ اسے دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے آج تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ وہ 2020 میں جو بائیڈن سے صدارتی مقابلہ ہار گئے تھے۔ ٹرمپ نہایت ڈھٹائی سے سچ کو مسترد کرنے اور جھوٹ پر اصرار کرنے کے عادی ہیں۔ وہ عوامی رائے یا میڈیا کی تنقید کا کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کے چاہنے اور پسند کرنے والوں کو بھی اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان کے لیڈر کے بارے میں کیا رائے قائم کی جارہی ہے۔ جب تک امریکی عوام کی بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی مالی حالت بہتر بنا سکتے ہیں، اس وقت تک وہ نہایت ڈھٹائی سے کسی بھی قانونی کارروائی کو ’سیاسی انتقام ‘ قرار دے کر آگے بڑھتے رہیں گے۔
اس کے باوجود اس دوران امریکی عدالتی نظام بہرحال کام کرتا رہا ہے اور ٹرمپ کی تمام تر الزام تراشیوں ، کوششوں اور قانونی کاوشوں کے باوجود اب ان کو سزا ملنے والی ہے۔ اس کے بعد وہ پہلے باقاعدہ سزا یافتہ شخص کے طور پر امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور اس عہدے پر براجمان ہوجائیں گے۔ یوں تو یہ بات بجائے خود امریکہ جیسی بڑی طاقت کے لیے شرمندگی اور سفارتی ہزیمت کا سبب ہونی چاہیے کیونکہ امریکہ دنیا میں آزادی رائے اور جمہوریت کا علم بردار ہے۔ لیکن خود اپنے ملک میں ایک مجرم کو اپنا صدر منتخب کر کے ایک ایسی روایت قائم کرنے والا ہے جو اپنی طرز کی ایک انوکھی روایت ہوگی۔ اگرچہ اس مقدمے میں نہ تو کسی خاتون کے ساتھ جنسی تعلق رکھنا جرم کے زیل میں آتا تھا اور نہ ہی متعلقہ خاتون کو خاموش رہنے کے لیے قائل کرنا یا اس کو اس کے لیے کچھ رشوت دینا امریکی قانون کے مطابق غیر قانونی حرکت تھی ۔ اصل قانون شکنی اس معاملہ میں رقم کی ادائیگی کے طریقہ کار پر نوٹ کی گئی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سابق پورن سٹار اسٹورمی ڈینئیلز کے ساتھ اپنے تعلقات 2016 کی انتخابی مہم کے دوران خفیہ رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اسٹورمی ڈینئیلز کو خاموش رہنے کے عوض انہیں ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر ادا کیے۔ یہ رقم انہوں نے اس وقت ا اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعہ ادا کرائی۔ یہاں تک تو معاملہ قانون کی گرفت میں نہیں آتا تھا ۔ البتہ مائیکل کوہن نے اور خود صدر ٹرمپ نے بعد میں عدالتی کارروائی کے دوران یہ تسلیم کیا تھا کہ یہ رقم مائیکل کوہن کے اکاؤنٹ سے ادا کی گئی تھی ۔ اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب ٹرمپ نے مائیکل کوہن کو یہ رقم واپس کرنے کے لیے جو ادائیگی کی ، اسے قانونی مشورے کی فیس قرار دیا۔ اس کے علاوہ یہ رقم ٹرمپ کے اپنے مالی وسائل کی بجائے ان کے الیکشن فنڈ سے ادا کی گئی تھی۔ اس پہلو کو لے کر استغاثہ نے مقدمہ بنایا اور ان پر 34 قانونی شقات کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔ الزامات واضح اور پختہ تھے اور ان کے دستاویزی شواہد موجود تھے ۔ لہذا ٹرمپ اپنی تمام کوشش کے باوجود اسے رد کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ جیوری نے متفقہ طور پر ان کو مجرم قرار دیا ۔ اب کل جج انہیں سزا سنانے والے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف اس مقدمے میں سزا کا انتظار کر رہے ہیں تو دوسری طرح 20 جنوری کو عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد امریکی سیاست و سفارت کا رخ موڑنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ ان اعلانات کی وجہ سے دنیا میں اس وقت انتہائی سنسنی خیزی محسوس کی جارہی ہے۔ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ کینیڈا اپنی خود مختار حیثیت ختم کردے اور اسے امریکہ کی 51 ویں ریاست بنا دیا جائے۔ انہوں نے گزشتہ نومبر میں صدارتی مقابلہ جیتنے کے بعد کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سے ملاقات کے بعد اس خواہش کا اظہار شروع کیا تھا۔ ٹروڈو خیر سگالی کے اظہار کے لیے انہیں ان کی فلوریڈا میں رہائش گاہ پر ملنے آئے تھے۔ کھانے پر ہونے والی ملاقات کے بعد ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پیغام میں یہ اقرار کیا کہ ملاقات خوشگوار رہی تھی لیکن اسی پیغام میں انہوں نے جسٹن ٹروڈو کو کینیڈا کا وزیراعظم کہنے کے بجائے کینیڈا کا گورنر قرار دیا ۔ انہوں نے دلیل دی کہ اگر کینیڈا ، امریکہ کی ریاست بن جائے تو اسے اپنی برامدات پر ٹیکس ادا نہیں کرنے پڑیں گے اور اپنے دفاع کی فکر بھی نہیں رہے گی۔ اس طرح کینیڈا ایک خوشحال اور بہتر جگہ بن جائے گا ۔
یہی گفتگو انہوں نے فلوریڈا میں دو روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں بھی دہرائی۔ البتہ انہوں نے کینیڈا کو امریکہ کا حصہ بنانے کے لیےدھمکی آمیز رویہ اختیار نہیں کیا اور نہ ہی طاقت کے استعمال کا ذکر کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے ڈنمارک کے زیر اختیار گرین لینڈ کے بارے میں واضح کیا کہ اس پر تسلط حاصل کرنے کے لیے ڈنمارک پر مالی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے گرین لینڈ کو امریکہ میں شامل کرنے کے لیے طاقت استعمال کرنے کاآپشن مسترد نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ، ڈنمارک پر معاشی پابندیاں لگائے گا اور اس کی مصنوعات پر محاصل میں تکلیف دہ حد تک اضافہ کیا جائے گا تاکہ ڈنمارک خود ہی گرین لینڈ کو امریکہ کے حوالے کردے۔ تاہم اس معاملہ پر فوجی طاقت کے استعمال کا آپشن کھلا رکھنے کی وجہ سے ڈنمارک کے علاوہ پورے یورپ میں شدید تشویش پائی جارہی ہے۔ کینیڈا اور ڈنمارک نیٹو کے فوجی الائنس میں شریک ہیں اور دوسری جنگ کے بعد ان کے درمیان قریبی دفاعی تعلق قائم رہا ہے۔ اب اگر نیٹو کا بڑا ملک اس اتحاد میں شامل دوسرے ملکوں کی خود مختاری کے بارے میں شبہات پیدا کرے گا تو اس سے تشویش اور پریشانی میں اضافہ یقینی ہے۔ اس قسم کی باتوں سے ٹرمپ کے دور صدارت میں بے یقینی میں اضافہ ہوگا جس سے معاشی تعلقات اور منڈیاں اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ گرین لینڈ پر ذبردستی قبضہ کا اشارہ پہلی مرتبہ دیا گیا ہے لیکن امریکہ کی طرف سے گرین لینڈ کو خریدنے کی بات پہلی بار 1860 میں صدر آندریو جانسن کی طرف سے کی گئی تھی۔ 2019 میں اپنے پہلے صدارتی دورانیہ میں ٹرمپ نے بھی گرین لینڈ خریدنے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ اس وقت گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹے ایگیدے نے کہا تھا کہ ’گرین لینڈ برائے فروخت نہیں ہے‘۔ ڈنمارک کی وزیر اعظم میتے فریڈرک سن نے اس تجویز کو ’بیہودہ‘ قرار دیا تھا۔ البتہ اب بات محض خواہش کے اظہار سے بڑھ کر مالی دباؤ اور فوجی طاقت استعمال کرنے تک آ پہنچی ہے۔ اس طرح نیٹو کے خلاف ٹرمپ نے اپنے مشن کا آغاز صدر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی کردیا ہے۔
عام طور سے قیاس کیاجارہا ہے کہ ٹرمپ نیٹو کے حلیف ملک کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی بات محض سنسنی پیدا کرنے اور یورپ کو اپنی دفاعی ضروریات میں خود مختار ہونے پر اصرار کے لیے کررہے ہیں۔ ڈنمارک نے اس دوران گرین لینڈ کے دفاع کے لیے بجٹ میں ایک ارب 250 ملین ڈالراضافہ کیا ہے ۔ اگرچہ یہ فیصلہ پہلے سے کیا گیا تھا لیکن اتفاقاً اس کا اعلان ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے بعد سامنے آیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح ٹرمپ اپنے اس مقصد میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں کہ امریکہ پر یورپ کے دفاع کا بوجھ کم کیا جائے۔ ڈنمارک کے اقدام سے ان کی یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ نیٹو کے دیگر یورپی ممالک کو بھی اس بارے میں ہوشیا ر رہنا ہوگا۔
تاہم ٹرمپ نے جس انداز میں پورے کینیڈا اور گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے، اس سے یورپ اور امریکہ کے دیرینہ تعلقات میں دراڑ پڑے گی۔ اس ایک بیان سے پیدا ہونے والا ارتعاش ٹرمپ کے پورے دور صدارت میں محسوس کیا جاتا رہے گا۔