خوشبوکی شاعرہ ، پروین شاکر کی یادیں

تیس دسمبر کی شام جب نیا سال صرف ایک دن کے فاصلے پر تھا اور پوری دُنیا کی توجہ سڈنی میں منعقد ہونے والی شاندار آتش بازی کی طرف تھی، ہم اسی سنہرے ساحلوں والے شہر سڈنی میں ایک خوبصورت ادبی محفل سجائے بیٹھے تھے۔ اس تقریب کا مہمان ِخاص اُردو کی معروف ترین شاعرہ جسے خوشبو کی شاعرہ بھی کہا جاتا ہے، پروین شاکر کا فرزند سید مراد علی تھا ۔

مُراد علی پچھلے بیس برس سے اہلیہ اور دو بیٹیوں کے ساتھ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم ہے ۔ وہ سافٹ ویئر انجئینر کی حیثیت سے ملازمت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ پاکستان میں فلم بھی پروڈیوس کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے جاوید شیخ ، بشریٰ انصاری اور دوسرے اداکاروں سے رابطے میں ہیں۔ مراد علی کے علاوہ پروین شاکر کے خاندان کے ایک اور فرد توقیر حسنین بھی اس شام ہمارے درمیان موجود تھے۔ توقیر حسنین پروین شاکر کے خالہ زاد اور پروین شاکر کے سابق شوہر نصیر علی کے بھائی ہیں۔ مراد علی اپنے اسی چچا کو ملنے سڈنی آئے ہوئے ہیں۔ اگلے روز یعنی نئے سال کی رات وہ سڈنی کی مشہور زمانہ آتش بازی دیکھنے جا رہے تھے۔

آج کی خوبصورت تقریب کا انعقاد شعر و ادب کے دلدادہ ہمارے دوست اختر مغل نے اپنے گھر پر کیا تھا۔ انہوں نے جب پروین شاکر کے فرزند کی آمدکا ذکر کیا تو مجھے نوجوانی کے وہ شب و روز یاد آگئے جب پروین کی شاعری میری تنہائی کی ساتھی تھی اور میرے دل کا دیا جلائے رکھتی تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں شاعری کی پہلی کتاب جو خرید کر پڑھی وہ خوشبو تھی۔ 1988 میں جب میں نے منسٹری آف ڈیفنس سلطنت آف عمان جائن کی تو آغاز کے کئی ماہ تنہائی کے مشکل لمحات پروین شاکر کی کتاب " خوشبو " اور احمد فراز کی کتاب "جاناں جاناں " کے سہارے گزرے ۔ میرے اندر شاعری کی پہلی کونپل بھی اُنہی دِنوں پھوٹی تھی۔ سڈنی میں اس شب پروین شاکر کی یادوں اور باتوں کا تذکرہ اس طرح ہوا کہ رات مہک اٹھی۔ کیوں نہ مہکتی آخر اس شاعرہ کا ذکر تھا جس کا خیال آتے ہی خوشبو، محبت، چاند، پھول، خواب اور موسم ِگُل یاد آ جاتے ہیں ۔ جس کی شاعری عورت اورمحبت کی لطیف ترجمانی ہے ۔ جس نے نسوانی جذبوں کو اتنی نزاکت سے بیان کیا کہ الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ دیا۔ پروین کی شاعری لڑکیوں کے کھٹے میٹھے جذبوں کی بارش کا گیت بن گئی جسے اس دور کی ہر لڑکی اپنے دل کی آواز سمجھتی تھی۔ پروین نے تلخ و شیریں ہر جذبے کو انتہائی شائستگی، برجستگی کے ساتھ ایسے برتا ہے کہ ہر شعر دلکش رنگوں کی تصویر بن گئی ۔ اس میں نسائیت، انسانیت ، تنہائی ، حسن و رعنائی اور ملال کے جذبے رنگ گھلے ہیں:

بدن کے قرب کو وہ بھی نہ سمجھ پائے گا

میں دِل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی

پروین شاکر ایک روایت شکن شاعرہ تھی۔ اس نے خواتین کی شاعری کا موڈ، مزاج اور اس کا ٹرینڈ ہی بدل کر رکھ دیا ۔ یہ اُردو شاعری میں نئی اور منفرد روایت تھی۔ نسائی جذبات و احساسات کو زبان دینے والے ایسی شاعرہ نہ پہلے تھی اور نہ شاید آئندہ ہوگی۔ حالانکہ اُردو شاعری میں ادا جعفری، کشور ناہید اور زہرا نگاہ جیسی بلند پایہ شاعرات موجود ہیں۔ پروین کو نہ صرف نسائی جذبوں کو شعروں میں ڈھالنے کا ہنر آتا تھا بلکہ ان کے اندر ایک جرات رندانہ تھی۔ یہ جرات اظہار ان کی پہچان بن گئی ۔ ان کی تلخی میں نرمی اور اختلاف میں بھی خلوص چھپا تھا اس لیے مردوں نے بھی اسے پسند کیا۔ بعد کے دور میں خواتین شعرا کے لیے پروین شاکر ایک تحریک اور انسپریشن بن گئیں۔ کہیں بھی اچھا لکھنے والی شاعرہ ہو تو لوگ اس کا تقابلی جائزہ پروین شاکر سےکرتےہیں۔ ایسے شعر پروین شاکر کی پہچان بن گئے:

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

پروین شاکر کی ابتدائی محبت کتابوں، پرندوں، پھولوں، بارش اور موسموں سے تھی۔ انہیں خرگوش اور پرندے پسند تھے کہ ان کے اصرار پر کچھ خرگوش اورپرندے خرید کر گھر میں رکھے گئے ۔ کوئی پرندہ مر جاتا تو پروین کئی دنوں تک سوگوار رہتی اور اسے اپنے ہاتھوں سے دفن کرتی تھی۔ بارش پروین شاکر کی کمزوری تھی۔ کہا جاتا ہے چوبیس نومبر 1952 جس دن وہ پیدا ہوئیں تو اس دن کراچی میں رِم جھم ہو رہی تھی ۔ اسی طرح چھبیس دسمبر 1994 جس دن اسلام آباد کے قبرستان میں اُنہیں دفنایا جا رہا تھا، اس دن بھی رِم جِھم اُن کا کفن گیلا کر رہی تھی اور تازہ مٹی کی خوشبو جو اُنہیں بہت پسند تھی، وہ بارش کی وجہ سے ہرسو پھیلی تھی:

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے

برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے

انہوں نے اپنے پہلے مجموعہ " خوشبو " میں نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کو جو زباں دی اس کے بارے میں خود دیباچے میں لکھتی ہیں: "جب ہولے سے چلتی ہوئی ہوا نے پھول کو چوما تھا تو خوشبو پیدا ہوئی تھی۔" پروین کی شاعری کی یہ خوشبو پھر ایسے پھیلی جیسے صبح دم باد ِنسیم پھیلتی ہے اس سے اُردو ادب میں ن منفرد اور خوشنما رنگ کا اضافہ ہوا:

کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی

اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

جینئس افراد وقت سے آگے سفر کرتے ہیں ۔ چوبیس سال کی کچی پکی عمر میں جب عام لڑکیاں گھر گرہستی سیکھ رہی ہوتی ہیں اس عمر میں پروین شاکر کی کتاب شائع ہوئی اور پورے ادبی اُفق پر چھا گئی۔ عوام و خواص نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس سےقبل بھی ادبی جرائد اور رسائل میں پروین شاکر کی شاعری مسلسل چھپ رہی تھی۔ احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں شائع ہونے والا ادبی جریدہ فنون پروین شاکر کی تازہ غزل کے بغیر نہیں چھپتا تھا ۔ احمد ندیم قاسمی نے پروین شاکر کی بھرپور سرپرستی کی ۔ پروین شاکر بھی انہیں انتہائی عزت احترام اور محبت سے نوازتی تھیں اور انہیں لاڈ سے "عمو " کے نام سے پکارتی تھیں۔ سڈنی کی محفل میں سید مراد علی نے گلہ کیا کہ ان کی والدہ "عمو "  کا مجھ سے بھی زیادہ خیال رکھتی تھیں۔ انہوں نے بتایا  میری اور عمو  (احمد ندیم قاسمی) کی سالگرہ ایک دن ہے۔ امی میری سالگرہ مؤخر کر دیتی تھیں اور عمو کی سالگرہ منانے لاہور چلی جاتی تھیں۔ خیر یہ محبت بھرا شکوہ تھا کیونکہ احمد ندیم قاسمی مراد علی کو بھی بہت عزیز رکھتے تھے۔

پہلی کتاب یعنی خوشبو کی اشاعت پر پروین شاکر کو  سولین اعزاز" تمغہ حسن کارکردگی" عطا کیا گیا۔ اتنی کم عمری میں اتنا بڑا اعزاز اور وہ بھی پہلی کتاب پر ، ایسا پہلے کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ یہ پروین کی ذہانت اور کمال ِفن کی وجہ سے تھا ۔ پروین شاکر کی ذہانت طالب علمی کے دور سے ہی ہویدا ہو گئی تھی ۔ پروین شاکر کی بڑی بہن نسرین بانو ان سے دو کلاس آگے تھی جب پروین تیسری کلاس میں ہوئی تو ان کو ڈبل پروموشن دیا گیا جس سے وہ اپنی بڑی بہن کی ہم جماعت ہو گئیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش اور پھر لسانیات میں ایم اے کی ڈگری لی ۔ اس پر بھی قناعت نہیں کی اور ہاورڈ یونیورسٹی سے بینک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کیا۔ مغربی علم کی وجہ سے ان کی شاعری میں مشرق و مغرب کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ پروین شاکر کو علم حاصل کرنے اور شعر کہنےکی دُھن تھی بلکہ جلدی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ انہیں احساس تھا کہ ان کے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ ان کی یکے بعد دیگرے چھ کتابیں خوشبو ، صدبرگ ،خ ود کلامی اور انکار ، کف آئینہ اور ماہ تمام شائع ہوئیں ۔ اتنی کم عمر میں اتنی کتابیں ان کی زود گوئی ظاہر کرتی ہیں ۔ لیکن ان کا معیار کہیں گرانہیں ۔ بلکہ ایک سے ایک بڑھ کر شعر اور غزلیں لکھیں جو پڑھنے والوں کو سر دُھننے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ان کے بے شمار اشعار زبان زدِ خاص و عام ہو چکے ہیں ۔ ان کی غزلیں مشہور گلو کاروں نے گا ئیں۔

پروین شاکر کی شاعری کے دلدادہ پاکستان ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ہیں۔ تمام بڑے شعرا جیسے احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، احمد فراز ، ندا فاضلی نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہیں آدم جی ایوارڈ، ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ ، فیض احمد فیض انٹرنیشنل ایوارڈ بھی عطا ہوئے۔ بڑے بڑے شعرا اور ادیبوں نے جو شہرت ساٹھ ستر سال کی عمر میں حاصل کی، پروین نے تیس چالیس برس میں ہی سمیٹی اور پھر اچانک اِس دُنیا سےایسے چل دیں جیسے کوئی رُوٹھ کر چل دیتا ہے ۔ اُن کے انتقال کی خبر سن کر پورا ملک سناٹے میں آگیا ۔ لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنی مشہور اور محبوب شاعرہ اس طرح اچانک انہیں چھوڑ جائیں گی۔ اس وقت ان کی عمر صرف بیالیس برس تھی اور وہ شاعری، کالم نویسی، ریڈیو ٹی وی کے پروگراموں کی میزبانی سمیت ہمہ تن مصروف تھیں اور عوام و خواص میں مقبول تھیں ۔

نو سال تک تدریس سے وابستہ رہنے کے بعد 1986 میں پروین شاکر نے سول سروس کا رُخ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر طالبات کو پڑھائی اور انگریزی ادب میں دلچسپی نہیں تھی ۔ سی ایس پی امتحان کے اُردو ادب کے پرچے میں پروین شاکر کی کتاب 'خوشبو' کے متعلق سوال بھی شامل تھا جس کا جواب خود مصنفہ نے دیا۔ وہ کسٹم کے محکمے سے وابستہ ہوگئیں حالانکہ میرٹ کے حساب سے ان کا ترجیحی محکمہ فارن سروسز تھا لیکن ضیا الحق کے دور ِآمریت میں غیر شادی شدہ عورت کو خارجہ محکمے میں جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ اس پر پروین کو بہت قلق تھا اور انہوں نے اپنی تحریروں میں اس کا اظہار بھی کیا۔ سرکاری افسر ادبی، ثقافتی اور سیاسی سے لے کر بے شمار موضوعات پر تبصرہ کیا ۔ اپنے کالموں میں پروین شاکر حکومت پر تنقید کرنے سے نہیں ہچکچاتی تھیں ۔

یوں ان کی زندگی کی کئی جہتیں تھیں ۔ شاید ان کے اندر کی بے قرار رُوح کو چین نہیں آ رہا تھا اور وہ اظہار کے مختلف راستے تلاش کر رہی تھیں۔ ان ظاہری کامیابیوں کے باوجود پروین شاکر کی جذباتی اور ذاتی زندگی نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔ سولہ برس کی عمر کی کچی پکی عمر میں اپنے سے سینیئر جماعت کے طالب علم کو پسند کرنے لگیں جس کی گواہی ان کی کئی ہم جماعت سہیلیوں نے دی ۔ نوجوانی کے اس عشق کا انجام وہی ہوا جو لڑکپن کے معصومانہ عشق کا عمومی طور پر ہوتا ہے۔ یہ عشق پروین کےدل تک محدود رہا ۔ شاید ان کی شاعری میں اس پہلی محبت کی خوشبو بھی شامل ہو:

ہم تو سمجھے تھے، اِک زخم ہے بھر جائے گا

کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اُتر جائے گا

اس پہلی کلی کے کھلنے کے بعد محبت کی اصل خوشبو سے پروین اس وقت روشناس ہوئی جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھ چکی تھیں۔ ایک ایسے شخص سے محبت ہوئی جو خوش شکل اور اعلیٰ عہدے پر فائز تھا لیکن عقیدے کا فرق آڑے آیا اور پروین کے والدین نے یہ رشتہ قبول نہیں کیا۔ پروین نے اپنی محبت کو قربان کر دیا ۔ ان کے اندر ایک غبار سا بھر گیا۔ اس کومل اور نازک شاعرہ پر یہ گھڑی قیامت کی طرح گزر گئی۔ وہ ٹوٹ پھوٹ کر شیشے کی طرح بکھر گئی اس کا دل زخمی ہو گیا۔ اُس نے پھرمعاشرتی جبر پر دل کھول کر لکھا:

میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر

ہاتھ دُعا سے یوں گرا ، بھول گیا سوال بھی

طویل عرصے تک پروین کا دل اور جسم دونوں جلتے رہے۔ اس کا علاج جاری رہا لیکن یہ زخم اتنی جلدی بھرنے والے نہیں تھے ۔ پھر ایک روز ان کا ایک عزیز ڈاکٹر نصیر علی جو فوج میں ملازم تھا ان کے گھر آیا اس نے پروین شاکر کا طبی معائنہ کیا۔ اس نے جب پروین شاکر کی جلتی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو ایک عرصے بعد پروین کے دل پر پھوار سی پڑی:

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا، رُوح تک آگئی تاثیرمسیحائی کی

ڈاکٹر نصیر علی کو بھی یہ کومل لڑکی بھاگئی ۔ وہ اس کا دکھ سمجھنے لگے تھے۔ وہ ان دکھوں کے کانٹے سمیٹ کر پروین کی زندگی میں خوشیوں کے پھول کھلانے کے متمنی تھے۔ پروین کو بھی اس رشتے پر اعتراض نہیں تھا ۔ دونوں خاندانوں میں رشتہ داری تھی۔ اس لیے بندھن قائم کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی ۔ حالانکہ بعد کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نصیر علی کے والدین خصوصاً ان کی والدہ ڈاکٹر بیٹے کی شادی کسی امیر کبیر گھرانے میں کرنا چاہتی تھیں ۔ سسرال میں پروین شاکر کو بھرے پرے گھرانے کے ساتھ رہنے اور تلخ حالات سے گزرنا پڑا۔

ستمبر 1976 میں ان کی شادی ہوئی۔ پروین شاکر کی عمر اس وقت چوبیس سال تھی اور اس وقت تک وہ اُردو ادب کی دنیا میں ایک بہت ہی معروف شخصیت بن چکی تھیں۔ ان کی شادی میں شروع ہی سے پریشانی کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ شاکر کی ساس اور خاندان کے دیگر افراد چاہتے تھے کہ پروین شاکر گھر میں رہے اور خاندان کی دیکھ بھال کرے۔ شادی کے تقریباً تین سال بعد 20 نومبر 1979 کو پروین شاکر نے ایک خوبصورت بیٹے کو جنم دیا جس کا نام انھوں نے سید مراد علی رکھا۔ وہ اپنے بیٹے کو پیار سے 'گیتو' پکارا کرتی تھیں اور اپنی تیسری کتاب 'خودکلامی ' کو اسی سے منسوب بھی کیا تھا۔ پروین شاکر کو ہمیشہ سے یہ گہرا صدمہ رہا کہ نصیر علی ان سے ملنے اور اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھنے بیٹے کی پیدائش کے تیسرے دن گئے تھے ۔ یہ کسی بھی بیوی اور پہلی بار ماں بننے والی عورت کے لیے یقیناً بہت افسوسناک اور تکلیف دہ بات ہے۔ پروین شاکر کو بیٹے سے بہت محبت تھی انہوں نے بیٹے کے لیے بھی بہت سی شاعری کی:

مجھے تیری محبت نے عجب ایک روشنی بخشی

میں اس دُنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں

بدقسمتی سے کوشش کے باوجود میاں بیوی کا رشتہ تادیر نہ پنپ سکا ۔ آخر ایک دن وہ دن آ گیا جس کے بارے میں پروین نے کہا ہے:

کیسے کہہ دوں کہ مجھےچھوڑ دیا ہےاُس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

در اصل پروین شاکر اور ڈاکٹر نصیر علی دو مختلف دنیا کے لوگ تھے۔ زندگی کے بارے میں دونوں کے خیالات مختلف تھے۔ ایسے میں انہوں نے الگ ہونا ہی مناسب سمجھا اور 1987 میں باہمی رضامندی سے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ پروین شاکر کو اپنے بیٹے مراد سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ مراد کے بغیر جینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ انہوں نے مراد کی پرورش کی ذمہ داری ڈاکٹر نصیر سے بغیر کسی شرط کے لے لی اور طلاق میں جو شرط رکھی گئی تھی، اسے بھی تسلیم کر لیا کہ اگر پروین شاکر نے کسی اور شخص سے شادی کی تو بیٹا مراد ان سے لے کر والد کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ ڈاکٹر نصیر نے طلاق کے ایک سال کے اندر ہی دوسری شادی کرلی لیکن پروین شاکر نےاپنی پوری زندگی دوبارہ شادی نہیں کی:

تیراپہلو، ترے دل کی طرح آباد رہے

تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی

تخلیقی ذہنوں کو معاشرے کی گھٹن کا زیادہ احساس ہوتا ہے ۔ 'صدبرگ' کے دیباچے میں پروین لکھتی ہیں:

میرا جرم یہ ہے کہ میں ایک ایسے قبیلے میں پیدا ہوئی جہاں سوچ و فکر کی صلاحیت رکھنا جرم ہے۔ لیکن سماج سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے مجھے پیدا ہوتے ہی زمین میں دفن نہیں کیا (اور اب ان کے لیے مجھے دیوار میں چنوا دینا اتنا آسان نہیں ہے!)…. لیکن وہ اپنی غلطی سے غافل نہیں، اس لیے اب میں یہاں ہوں اور اپنی مجبوری کے اس اندھے کنویں کے گرد چکر لگاتے ہوئے میرے پاؤں شل ہو گئے اور آنکھوں میں پانی--- کیونکہ دوسری لڑکیوں کی طرح میں نے سر سے پاؤں تک برقعہ پہننے سے انکار کر دیا تھا! اور انکار کرنے والوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا!

ہر انکار کے ساتھ ایک اور کیل میرے جسم میں چبھوئی جاتی رہی۔ لیکن جنہوں نے میرے جسم میں کیل ٹھونکے انہوں نے میری آنکھوں کو نقصان نہیں پہنچایا۔ شاید وہ جانتے تھے کہ انہیں گل کرنے سے دل کی روشنی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا یا شاید انہیں اپنے اعمال سے لطف اندوز ہونے کے لیے کسی گونگے اور بہرے گواہ کی ضرورت تھی۔ میں حیران ہوں کہ ایسا گواہی ابھی تک میری نگاہوں سے کیوں نہیں گزرا!

پروین شاکر کے بیٹے مراد علی نے بتایا " 26 دسمبر 1994 جب میری عمر صرف پندرہ برس کی صبح میری امی حسب معمول تیار ہو کر کام کے لیے نکلیں ۔ مجھے یاد ہے اس دن بارش ہو رہی تھی ۔ بعد میں علم ہوا کہ بارش کی وجہ سے سگنل کام نہیں کر رہے تھے اسی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ ساڑھے نو بجے کے قریب مجھے کال آئی کے آپ کی والدہ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ میں نے ایک فیملی فرینڈ پروین قادر آغا کو فون کیا جب ہم ہاسپٹل پہنچے تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کی والدہ جب ہاسپٹل میں آئیں تو اس وقت کچھ سانسیں باقی تھی جو زیادہ دیر تک نہ رہیں۔"

پروین شاکر اپنے لاڈلے بیٹے، اس ہنستی بستی دُنیا اور مصروف زندگی کوچھوڑ کر منوں مٹی کے نیچے جا بسیں ۔ مراد علی جس کی زندگی کا محور صرف ماں تھی ، یتیم ہو گیا۔ مراد علی نے بتایا " میں کھانے کے معاملے میں بہت ضدی تھا اور صرف مخصوص کھانے کھاتا تھا اور میری ماں میرے لیے وہی کھانے تیار کرتی تھی جو مجھے پسند ہیں بلکہ انہوں نے وہ کھانے بنانے میرے لیے سیکھے تھے۔ وہ مجھے ہر حال میں ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں اور وہ بھی نیورو سرجن ۔ اس کے لیےانہوں نے مجھے ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔"

ایک سوال کے جواب میں مراد علی نے بتایا "والدہ کی وفات کے بعد ان کی دوست مسز پروین قادر آغا نے میرا بہت خیال رکھا ۔ انہوں نے پروین شاکر ٹرسٹ قائم کیا جو والدہ کی ادبی کاوشوں کو پروموٹ کرتا ہے اور میری تعلیم و تربیت میں اعانت کی۔ میں نے سافٹ ویئر انجینئرنگ میں ڈگری لی اور اب ٹیسلا کمپنی کے ساتھ منسلک ہوں"۔ پروین شاکر کے سابق شوہر نصیر علی کے بھائی توقیر حسنین نے بتایا " علیحدگی کے بعد میرے بھائی نے مراد علی کو پروین کے پاس رہنے دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ پروین کو بہت چاہتے تھے لیکن حالات ایسے بن گئے کہ علیحدگی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ مراد علی کے معاملے میں پروین بہت حساس تھیں اور ہم چچا بھی اسے نہیں مل سکتے تھے لیکن نصیر علی سمیت ہمارے گھر والوں نے اسے ایشو نہیں بنایا۔

توقیر حسنین نے مزید بتایا کہ پروین شاکر بہت سادہ مزاج تھیں۔ انہیں عام لڑکیوں والے شوق نہیں تھے لیکن رُومانیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ کتاب ، پھول ، پیڑ، پرندے یا بادل ، سب سے پیار کرتی تھیں۔ وہ عموماً گھر میں ننگے پیر رہتیں حتی کہ گاڑی میں بھی جوتے اُتار دیتی تھیں ۔ انہیں پاکستان سے بہت پیار تھا اور اُردو زبان و ادب پر ناز تھا۔ پروین اگرچہ انگلش لٹریچر پڑھاتی تھیں لیکن انہوں نے صرف اُردو میں شاعری کی۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ انگریزی میں شعر کیوں نہیں کہتیں تو انھوں نے جواب دیا  ’میں جس زبان میں خواب دیکھتی ہوں اسی میں شعر کہتی ہوں‘۔

پروین شاکر نے ایک کومل لڑکی اور پھر ایک بھرپور اور حسین عورت کے جذبات کو لفظوں میں ایسے پرویا کہ وہ موتی بن کر ادب کی مالا بن گئے:

اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی

جیتوں تو تجھے پاؤں، ہاروں تو پیا تیری

پروین کی شاعری میں انسانی رشتوں میں ہونے والی شکست و ریخت کا تکلیف دہ اور پیچیدہ عمل انسان کے اندر جو ٹوٹ پھوٹ پیدا کرتا ہے، اس کی ترجمانی اس طرح سے کی:

تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں

اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے اُلجھ جاتی ہیں

بہت سے شعر جو ان کی اپنی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں اور رشتوں کی بے اعتنائی کا نوحہ بیان کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے:

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا

ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

ان کی سب سے اچھی دوست پروین قادر آغا اپنی کتاب "اے بایو گرافی آف پروین شاکر" میں لکھتی ہیں کہ "پروین کی ڈریسنگ ٹیبل میک اپ کے سامان سے بھری ہوتی تھی، لیکن ان کی موت سے 15 دن قبل ان کی میز تقریباً خالی تھی اور میک اپ تقریباً ختم ہی ہو چکا تھا۔ گویا کہ وہ سفر آخرت کے لیے تیار تھی۔ وقت زخم مندمل کر دیتا ہے اور یادوں کو مبہم کر دیتا ہے لیکن 30 برس گزرنے کے بعد بھی پروین شاکر کے بیٹے نے ماں کی یادوں کو جس طرح دل کے ساتھ لگا رکھا ہے، وہ ناقابل فراموش ہے ۔ اسی طرح اُردو شاعری پڑھنے والے دلوں میں پروین شاکر ہمیشہ زندہ رہیں گی :

وہ چاند چھپ چکا ہے مگر شہر دید نے

اب تک اسی طرح سے بسائی ہوئی ہے رات