حصول انصاف کے لئے نظام تبدیل کیجئے!
- تحریر سید مجاہد علی
- جمعہ 10 / جنوری / 2025
بانی تحریک انصاف عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے اڈیالہ جیل میں بھائی سے ملاقات کے بعد پیغام دیا ہے کہ عمران خان ملکی عدالتی نظام میں انصاف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس لیے اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ’ہم اپنے کیسز بین الاقوامی سطح پر لے کر جائیں گے‘۔ اگرچہ اس کی کوئی نظیر یا روایت موجود نہیں ہے کہ کوئی عالمی ادارہ کسی خود مختا ر ملک میں مقدمات کا سامنا کرنے والے کسی شخص کو ریلیف دلا سکے۔
علیمہ خان نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ایک خود مختار ملک میں قائم مقدمات کے بارے میں عالمی نظام کیسے اور کیا مدد فراہم کرسکتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، اس لیے ہم اب اپنے معاملات عالمی اداروں کے پاس لے کر جائیں گے۔ یہ دعویٰ مبہم اور تحریک انصاف کی پروپیگنڈا مہم کا حصہ تو ہوسکتا ہے لیکن عمران خان کو جیل سے رہا کرانے یا تحریک انصاف کے لیے سیاسی میدان میں سہولت حاصل کرنے میں معاون نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف اس سے قبل امریکہ و برطانیہ سمیت متعدد ممالک میں اپنے حامیوں کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کرانے اور وہاں کے سیاسی لیڈروں کو عمران خان کی رہائی کے لیے آواز بلند کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اسی حکمت عملی کے نتیجے میں متعدد یورپی ملکوں اور امریکہ وغیرہ میں مسلسل احتجاج منظم کیے جاتے رہے ہیں۔
تحریک انصاف کو ان کوششوں میں اس حد تک تو کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ امریکہ و برطانیہ کے ارکان پارلیمنٹ نے عمران خان کے انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے یا نو منتخب امریکی صدر کے ایک نامزد کردہ سفیر عمران خان کی حمایت میں پیغامات جاری کرتے رہے ہیں ۔ کوئی سیاسی پارٹی اس سے زیادہ عالمی حمایت حاصل کر بھی نہیں سکتی۔ لیکن تحریک انصاف کو یہ غور بھی کرنا چاہئے کہ کوئی ملک خواہ وہ امریکہ جیسا طاقت ور ملک ہی کیوں نہ ہو، کسی خود مختار ملک کی حکومت کو کسی سیاسی لیڈر کے بارے میں فیصلے کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ علیمہ خان کا بیان اس لحاظ سے بھی گمراہ کن ہے کہ عمران خان کو ملکی عدالتی نظام میں انصاف نہیں مل پایا۔ عمران خان کے خلاف قائم مقدمات پر مسلسل زیریں عدالتوں میں سماعتیں ہورہی ہیں۔ متعدد مقدمات کے فیصلے آئے اور ہائی کورٹ سے ان فیصلوں کے خلاف ریلیف بھی ملا۔ اسی طرح متعدد دیگر مقدمات کی سماعت کسی قانونی حجت یا تحریک انصاف کے وکلا کی اپنی حکمت عملی کے سبب التوا کا شکار ہوتی رہی ہے۔ ایسے میں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے خلاف سینکڑوں مقدمے قائم کرکے ملکی حکومت نے سیاسی انتقام لینے کی کوشش کی ہے لیکن ان مقدمات کے فیصلے بہر حال عدالتوں ہی میں ہوں گے اور عمران خان یا دیگر لوگوں کو عدالتی نظام میں ہی ریلیف کی کوشش بھی کرنی پڑے گی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ واضح ہورہا ہے کہ عمران خان جیل سے رہائی کے لیے بے چین ہیں۔ ان کی یہ خواہش بھی جائز اور قابل فہم ہے لیکن وہ اس صورت حال کا سامنا کرنے والے پہلے سیاسی لیڈر نہیں ہیں۔ مزاحمت کرنے والے سیاسی لیڈروں کو ماضی میں بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان تمام معاملات میں خواہ ان کا تعلق نواز شریف کے مقدموں سے ہو یا آصف زرداری کے معاملات ہوں، ان لوگوں نے ملکی عدالتوں سے ہی سہولت حاصل کی۔ وقت اور سیاسی حالات تبدیل ہونے پر یا تو انہیں ضمانتیں دے دی گئیں اور مقدمات ’سرد خانے‘ میں ڈال دیے گئے یا پھر انہیں ان الزامات سے بری کردیا گیا۔ کسی حکومت یا حکمران نے کسی بھی لیڈر کو اپنے طور پر ’معافی‘ دے کر رہا نہیں کیا۔ پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے لیے ضرور بینظیر بھٹو اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو معافی دینے کا حکم جاری کیا تھا جسے ’این آر او ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ عمران خان نے اس اصطلاح کو بعد میں سیاسی مقاصد کے لیے انتہائی بھونڈے انداز میں استعمال بھی کیا تھا حالانکہ پیپلز پارٹی یا کسی دوسرے شخص کو پرویز مشرف کے این آر او سے کوئی فائدہ نہیں ہؤا تھا ۔کیوں کہ سپریم کورٹ نے اسے آئین کے خلاف قرار دے کر کالعدم کردیا تھا۔ البتہ عمران خان سیاسی طور سے اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اب عمران خان کو بھی اسی صبر آزما راستے سے گزرنا پڑے گا۔ اور کامیابی ملک کے اندر رہ کر ملکی نظام میں ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کوئی دوسرا ملک پاکستانی حکومت کو مختلف الزامات کا سامنا کرنے والے کسی لیڈر کو رہا کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکتا۔
یہ صورت حال بیان کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ عمران خان کے ساتھ ملکی نظام انصاف پر مبنی سلوک کررہا ہے۔ لیکن یہ تصویر دکھانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سلوک پہلی بار کسی سیاسی لیڈر کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا ۔ خود عمران خان کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا تھا۔ اس وقت عمران خان نے اس نظام کو تبدیل کرنے ، ناجائز مقدمے بنانے اور عدالتوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دلانے کے لیے کوئی سیاسی فیصلہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ کیوں کہ وہ اس نظام میں تیار کیے گئے ایک منصوبہ کے تحت اقتدار میں لائے گئے تھے ۔اس منصوبہ کو اب عرف عام میں ’ہائیبرڈ‘ نظام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس منصوبہ کا مقصد ہی یہ تھا کہ نہ صرف پسندیدہ لیڈر کو اقتدار دلایا جائے اور اس کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور کی جائیں بلکہ ان تمام لیڈروں کو بھی راستے سے ہٹایا جائے جو اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے مشکل پیدا کرسکتے ہیں۔ یعنی عمومی جمہوری روایت کے برعکس آئینی انتخابی انتظام کے اندر رہتے ہوئے مختلف سیاسی پارٹیوں کو کام کرنے کا موقع دینے کی بجائے ایک پارٹی کے لیے میدان صاف کیا جائے۔ ایسے انتظام میں رکاوٹ بننے والے لیڈروں کو راستے سے ہٹانا منصوبے کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ کل تک نواز شریف اور آصف زرداری یہ رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اب ان کی جگہ عمران خان کو نظام کے لیے ’خطرہ‘ سمجھتے ہوئے نشان عبرت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس خرابی کی وجہ یہ ہے کہ ملکی سیاست دانوں نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران سیاست کو ملکی فلاح اور قومی منصوبوں کی تکمیل کا راستہ سمجھنے کی بجائے اقتدار حاصل کرنے اور انفرادی مفادات اٹھانے کا راستہ بنایاہؤا ہے۔ یوں تو ملک میں آئینی پارلیمانی جمہوریت کام کررہی ہے اور ایک منتخب وزیر اعظم قانونی طریقے سے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ لیکن عمران خان ہی نہیں متعدد غیر جانبدار تجزیہ نگار بھی اس انتظام کو ناقص اور جعلی قرار دیتے ہیں۔ گزشتہ سال فروری میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں شبہات کا اظہار سامنے آتا رہا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف ، شہباز شریف کو کبھی ’کٹھ پتلی‘ کبھی ’چپراسی‘ اور کبھی اس حکومت کو فارم 47 کی پیداوار قرار دے کر انتخابات کو نا قابل قبول قرار دیتے رہتے ہیں۔ لیکن سوچنا چاہئے کہ کیا 2024 کے انتخابات میں پہلی بار جعل سازی و دھاندلی ہوئی ہے ؟ کیا 2018 کے انتخابات کے خلاف ایسے ہی دعوے نہیں کیے جاتے تھے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے ملک میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں ہمیشہ ہی ہارنے والی پارٹیاں دھاندلی کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ حتی کہ 1977 میں پاکستان قومی اتحاد کے نام سے بننے والے سیاسی اتحاد نے پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت حاصل کرنے والی حکومت کے خلاف انتخابی دھاندلی کے الزام میں شدید مہم چلائی اور جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔ اس کے باوجود سیاسی لیڈر وں نے کبھی فوجی حکمرانوں یا نام نہاد اسٹبلشمنٹ کا آلہ کار بننے سے گریز کی کوشش نہیں کی۔
ملک میں آئینی طور سے پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے لیکن موجودہ صورت حال میں اسے سب سے ’مظلوم ‘ ادارہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ کیوں کہ قومی اہمیت کا کوئی فیصلہ پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ کہیں اور ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں فعال پارلیمنٹ کی موجودگی میں فوجی لیڈروں یا اسٹبلشمنٹ کو کیسے سیاسی یا حکومتی معاملات میں ’مداخلت‘ کا موقع مل جاتا ہے؟ یہ موقع خود سیاست دان فراہم کرتے ہیں کیوں کہ اس طریقے سے کوئی ایک خاص گروہ ایک خاص صورت حال میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے پر توجہ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں چار فوجی سربراہوں نے آمریت قائم کی ۔ اور ہر فوجی حاکم کو ملکی سیاست دانوں ہی نے سہولت فراہم کی اور ملک پر حکومت کرنے کا موقع دیا۔ موجودہ سیاسی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ یوں تو منتخب پارلیمنٹ موجود ہے لیکن منتخب پارٹیاں جمہوری پارلیمانی روایت کے مطابق مل جل کر کام کرنے اور غیر منتخب اداروں یا افرادکو فیصلہ سازی سے علیحدہ رکھنے کی بجائے ، انفرادی یا گروہی اقتدار کے لیے ان عناصر سے ساز باز کرتی ہیں جن کا سیاست یا حکومت سازی اور فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ عمران خان جب براہ راست ’فیصلہ سازوں‘ سے بات کرکے معاملات طے کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں تو وہ بھی درحقیقت اسی خواہش کا اظہار کررہے ہوتے ہیں کہ جو مقام (کٹھ پتلی) شہباز شریف کو دیا گیا ہے ، اس کا اصل حقدار میں ہوں۔ گویا عمران خان کی ’حقیقی جمہوریت‘ بھی درحقیقت اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے ہی کا دوسرا نام ہے۔
ملکی سیاست دان اگر مسلسل اسی کو جمہوریت و عوامی مفاد کہیں گے اور نظام میں خرابی پیدا کرنے والا رویہ تبدیل کرنے کا آغاز نہیں کیا جائے گا تو یہ شیطانی دائرہ کبھی ٹوٹ نہیں سکے گا۔ واضح ہونا چاہئے کہ سیاسی نعرے کی حد تک اسٹبلشمنٹ پر ماورائے آئین اقدامات کے جیسے بھی الزامات عائد کیے جائیں لیکن اس کا موقع خود سیاست دان ہی فراہم کرتے ہیں۔ سیاست دان اگر نظام درست کرنا چاہتے ہیں تو اسے عالمی اداروں میں پاکستان کے خلاف شکائتیں کرکے ٹھیک نہیں کرایا جاسکتا ۔ بلکہ ملکی لیڈروں اور پارٹیوں کو خود جمہوری روایت اور آئین کے احترام کا راستہ اختیارکرنا ہوگا۔