آسٹریلیا میں اسلام
- تحریر فہیم اختر
- منگل 14 / جنوری / 2025
بہت ہی کم آسٹریلوی لوگوں کو پتہ ہے کہ ابوریجنل او ر ٹوریس اسٹریٹ جزائر کے لوگوں کا رابطہ غیر ملکی مسلمانوں سے عیسائی مذہب کے آنے سے بہت پہلے سے تھا۔ اس بات کا انکشاف جانک روجرس نے اپنے ایک کتاب میں کیاہے۔
حالانکہ وہ سفید لائن اب صریح ہو گئی ہے اور سامنے ایک کشتی بھی کھڑی ہے جو آسٹریلیا کی ایک ایسی کہانی بتا رہی ہے جس سے کسی آسٹریلوی باشندے کو انکار نہ کرنا پڑے۔ یہ سب انڈونیشیا کی روایتی کشتی ہے جسے پراوس کہتے ہیں اور جو مسلم مچھیروں کو قریب کے تجارتی شہر مکاسار سے تریپنگ اور سی کیو کمبر(وہ سمندری چھوٹے جانور جو سمندر کی تہہ میں رہتا ہے)، کی تلاش میں لاتا ہے۔
مکاسان کس سال آسٹریلیا آئے تھے؟ یہ کہنا مشکل ہے لیکن کچھ مورخین کا ماننا ہے کہ یہ لوگ 1750میں آسٹریلیا آئے تھے لیکن جزیرے کی چٹانوں کے رنگ و روغن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اس سے قبل آئے ہوں گے۔ ایک اور اسٹڈی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ ممکن ہے 1500 میں آئے ہوں۔اسی طرح کا ایک انڈونیشی پینٹنگ کا نمونہ جزیرے میں پایا گیا ہے جس سے اس کے قدیم ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ یہ لوگ سال میں ایک بارسی کیو کمبرلینے کے لئے یہاں جمع ہوتے تھے جو کہ چینی کھانے اور ادویات میں استعمال ہوتا ہے اور جو بہت مہنگے ہوتے ہیں۔
بقول جون براڈلی جن کا تعلق میلبورن موناس یونیورسٹی سے ہے اور جو انتھروپولو جیسٹ ہیں، مکاسان وہ سب سے پہلے لوگ تھے جنہوں نے آسٹریلیا کو عالمی رشتہ سے جوڑنے کی کوشش کی تھی اور یہ کامیاب بھی ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک ساتھ تجارت کی تھا اور جو کافی صاف ستھری تھی اور اس میں کوئی نسل پرستی نہیں تھی۔ اس کے بر عکس برطانوی حکمرانوں نے ملک کو تیرا نولیس کے نامزد کر دیا تھا جس کے معنی یہ زمین کسی کی نہیں ہے۔اور اس طرح ملک کو بغیر کسی معاہدے اور مقامی لوگوں کی مرضی کے بغیر قبضہ کر لیا۔جب کہ یہ جگہ مقامی لوگوں کی تھا اور انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ یہ کام ان کے حق کے خلاف کیا گیا۔
کچھ مکاسان کے سی کیوکمبرکے تاجروں نے ابوریجنل مقامی عورتوں سے شادی کرکے وہیں کی بودباش اختیار کر لی اور وہ اپنے پیچھے آسٹریلیا میں مذہب اور ثقافت کی میراث کو چھوڑ گئے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے غار کی پینٹنگ اور دیگر ابوریجنل فن،اسلامی عقائد کا بھی اثر مقامی ابوریجنل لوگوں پر چھوڑا تھا۔ جان براڈلی کہتے ہیں کہ اگر آپ ارن ہیم لینڈ کے جنوب مشرق علاقے میں جائیں تو وہاں آپ کو اسلامی ثقافت کی بے طرح مثالیں پینٹنگ، ناچ گانوں اور جنازے کے رسم میں دیکھنے کو ملیں گی۔اس کے علاوہ ان کے گانوں میں ’اللہ اللہ‘کی آواز بھی سنائی دے گی۔ اور کم از کم صرف اللہ کی عبادت کی باتیں سن سکتے ہیں۔اس کی مثال ’ولیتھا ولیتھا‘سے ہے جو کہ ایلنگو جزیرہ کے لوگ اپنی عبادت میں کرتے ہیں جو کہ عربی کے ’اللہ تعالیٰ‘سے منسلک ہے جس کے معنی ہے’اللہ اعلیٰ‘ہے۔
’ولیتھا ولیتھا‘مقامی لوگوں کے جنازے کے رسم سے منسلک ہے جس میں دیگر اسلامی عناصر کا بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً مغرب کی طرف کھڑے ہوکر عبادت کرنا یعنی کہ کعبہ کی سمت کھڑے ہونا اور سجدہ کرنا جو کہ مسلمانوں کے سجود سے ملتا جلتا ہے۔ہاورڈ مارفی جو کہ آسٹریلیا نیشنل یونیورسٹی کے ماہر انتھرو پولو جیسٹ ہیں کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ یہاں کہ لوگ اللہ جیسے ایک لفظ کو سچا خدا مانتے ہیں بلکہ یولنگو لوگ نے اللہ جیسے لفظ کو کونیات میں اپنا لیا ہے۔ 1906 میں مکاسان اور ٹوریس اسٹریٹ جزیرے کو لوگوں کے درمیان سی کیو کمبر کی تجارت کا خاتمہ ہوگیا جس کی دو وجوہات تھی پہلی وجہ تھی حکومت کا بھاری ٹیکس لگانا اور دوسری وجہ تھی حکومت کی پالیسی جس میں غیر سفید لوگوں کو تجارت میں روک لگانا۔ حالا نکہ صدیوں بعد بھی ابوریجنل اور مکاسان لوگ ایک ساتھ آپسی محبت اور اعتماد کا جشن مناتے ہیں۔
ریگینا گینٹر، گری فیتھ یونیورسٹی برسبین کی مورخ کا کہنا ہے کہ مجھے علم ہے کہ مکاسان جب ارن ہیم لینڈ آئے تو وہ ہتھیاروں سے لیس تھے اور انہوں نے یہاں خوب لوٹ مار مچائی تھی۔ لیکن بہت سارے یولونگو قبائل کے لوگوں نے محض اس مقصد سے ان لوگوں سے شادی کر لی کہ ان کے خیال میں نو آبادی میں رہنے سے بہتر ہے کہ مکاسان کے ساتھ زندگی گزاریں۔ ریگینا گنیٹرکی یہ بات جب قبیلہ کے عمر دراز آدمی کو بتا ئی گئی تو انہوں نے اسے سرے سے خارج کر دیا او ر اس کے بر عکس انہوں نے اس کو فخریہ دو قبیلہ کا کامیاب ثقافتی ملن بتا یا جو کہ ان لوگوں سے بہتر ہے جنہوں نے ہماری زمین پر قبضہ کرلیا ہے اور ہماری عورتوں کو بھی لے گئے اور اس کے بعد یہ اپنے آپ کو بہت مہذب اور اعلیٰ بتاتے ہیں۔
مسلمانوں اور ابوریجنل لوگوں میں ملاپ کا یہ ایک واحد مثال نہیں ہے بلکہ انیسویں اور بیسویں صدی میں جنوب مشرق ایشیا سے بہت سارے لوگوں کو موتی کے کاروبار کے لئے آسٹریلیا لایا گیا تھا۔ یہ لو گ ملیس کہلاتے ہیں اور جنہوں نے ابوریجنل لوگوں میں شادی کرکے اسلام مذہب اور ثقافت کو بڑھا وا دیا تھا۔اور یہی وجہ ہے کہ آ ج شمالی آسٹریلیا میں بہت سارے لوگوں کے نام دالہا،حسن اور خان پایا جاتا ہے۔ دریں اثنا آسٹریلیا کے صحرا میں بھی مسلمانوں کی آمد ہوئی۔ 26000لوگوں کی آبادی والے ایس اسپرنگ کے مضافات میں مسجددکھائی دیتی ہے اور جس کی مینار شان سے کھڑی ہے۔ اس کو ’افغان مسجد‘ کہتے ہیں۔ 1860سے 1930 کے درمیان لگ بھگ چار ہزار لوگ اونٹ کے سواری کے ذریعہ یہاں پہنچے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے تھا جن میں کچھ ہندوستان اور پاکستان کے لوگ بھی شامل تھے۔ 62سالہ ریمنڈ ستور کا کہنا ہے کہ میرے والد اونٹ کی سواری کرتے تھے اور ان کے پاس کوئی چالیس اونٹ ہوتے تھے۔ جب انہوں نے یہاں پڑاو ڈالا تو ان کی ملاقات ابوریجنل لوگوں سے ہوئی اور اس طرح ہم لوگ ابوریجنل قبیلہ سے منسلک ہوگئے۔
پھر افغانی اونٹ سواروں نے اپنے آبائی مکان سے دور بر صغیر کے مرکزی آسٹریلیا میں کئی مساجد تعمیر کروائیں۔ اور بہت سے لوگوں نے ابوریجنل لوگوں میں شادیاں بھی کی۔. 1930 میں جب موٹر گاڑیوں کا آنا شروع ہوئیں تو افغانی اونٹ سواروں کی اہمیت ختم ہوگئی۔ آج الیس اسپرنگ کی افغان مسجد میں زیادہ تر عبادت کرنے والوں کا تعلق ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کی پہلے نسل کے تارکین وطن سے ہے۔ یہاں عبادت کرنے والے لوگ ان افغان اور ابوریجنل لوگوں کے گھر جاتے ہیں اور انہیں اسلام کی تعلیم اور عبادت کی دعوت دیتے ہیں۔جس سے ان لوگوں میں اسلام کی تعلیم کی جانکاری ہورہی ہے اور ان کو اپنی نسل اور اپنے آبا و اجداد کے بارے میں بھی معلومات ہورہا ہے۔ ان اقدام سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر ابوریجنل لوگ مسلسل اسلام قبول کر رہے ہیں۔
آسٹریلیا کی 2011 کی مردم شماری کے مطابق 1140لوگوں نے اپنے آپ کو ابوریجنل مسلم لکھوایا ہے۔ڈبلو بی اے سوپر میڈل ویٹ چمپئن انتھونی مندائین سب سے اہم ابوریجنل ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انتھونی مندائین کو اسلام مذہب کا علم سب سے پہلے امریکہ سے ہوا جہاں وہ امریکن بلیک پاؤر تحریک سے متاثر ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ وہ سوِل رائٹس مومنٹ کے لیڈر میلکم ایکس سے بھی متا ثر تھے۔بہت سارے ابوریجنل لوگوں کا ماننا ہے کہ قرآن میں جو 124000پیغمبروں کا جو ذکر آیا ہے ان میں چند پیغمبر ضرور ابوریجنل کمیونیٹی میں آئے ہوں گے اور اپنے علم کی تبلیغ کی ہوگی۔ لیکن جن ابوریجنل لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ان کے لئے اسلام ایک تسلسل نہیں ہے بلکہ ان کے لئے اسلام ایک نئی شروعات ہے۔
محمد جو کہ کافی عرصے تک بے گھر رہا اور شراب پینے کا عادی تھا،اس کا کہنا ہے کہ اسے اسلام کی تعلیم اور نظریے سے باقاعدہ عبادت، خود احترام اور اچھے انسان بننے کا شرف حاصل ہوا تو وہیں اسے شراب سے نجات، نشیلی منشیات اور جوئے جیسی لت سے چھٹکارا ملا۔ محمد اب ایک نیک انسان بن گیا ہے اور وہ چھ برسوں سے ایک مستحکم اور پیشہ وارانہ زندگی گزار رہا ہے۔ محمد نے مزید کہا کہ جب سے اس نے اسلام قبول کیا ہے تب سے اسے اپنی اہمیت اور انسان ہونے کا احساس ہوا ہے جب کہ اس سے قبل وہ دو حصوں میں بٹا ہوا تھا اور اس کو اپنی حرکتوں پر شرمندگی تھی اور وہ ایک نامکمل انسان محسوس کرتا تھا۔ محمد نے ابوریجنل لوگوں کی اس تنقید کو خارج کردیا کہ وہ ابوریجنل ثقافت اور روایت سے بھٹک گیا ہے۔ محمد کا کہنا ہے کہ ابوریجنل لوگوں کی ثقافت کو باہر سے آئے ہوئے سفید نسل کے لوگوں نے برباد کیا ہے۔
محمد کہتے ہیں کہ میری ثقافت کہاں ہے؟ یہ تو دو نسل پہلے ختم ہو چکی ہے۔ مجھے اسلام قبول کر کے سب سے پہلے مجھے اپنی ذات اور انسان ہونے کا احساس ہوا۔ کیا آپ اس چیز کی قدر نہیں کریں گے جس نے مجھے نالے سے نکال کر ایک اچھا شوہر، باپ اور پڑوسی بنایا نا کہ آپ اس چیز کی تلاش میں اپنا وقت ضائع کریں گے جس کی کوئی امید ہی نہ ہو۔