خلیل الرحمٰن کی دلی
- تحریر فہیم اختر
- اتوار 02 / مارچ / 2025
سفر اور زندگی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، کیونکہ زندگی بذات خود ایک سفر ہے۔ کبھی ہموار، کبھی دشوار، کبھی حیرت انگیزتو کبھی سبق آموز۔سفر ہمیں نئے تجربات، نئے خیالات اور مختلف ثقافتوں سے روشناس کراتا ہے۔ یہ ہماری سوچ کو وسعت دیتا ہے، ہمارے اندر برداشت، صبر، اور لچک پیدا کرتا ہے۔
جب ہم کسی نئی جگہ جاتے ہیں تو نہ صرف مقامات دیکھتے ہیں بلکہ نئے لوگوں سے مل کر ان کی کہانیوں کا حصہ بنتے ہیں۔ ہر سفر ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے، چاہے وہ کسی کتاب میں نہ ملنے والا سبق ہو یا زندگی کو دیکھنے کا نیا زاویہ ہو۔پچھلے کئی مہینے سے دلی، پٹنہ اور کلکتے کا سفر کا پلان بن رہا تھا اور ا س کی وجہ یہ تھی کہ مجھے ہندوستان کے کئی شہروں میں تقریبات میں حصہ لینا تھا۔تاہم خلیل الرحمٰن صاحب نے اصرار کیا کہ میں جب دلی آؤں تو ان کے گھرضرور آؤں۔دلی صرف ایک شہر نہیں، بلکہ ایک عہد، ایک داستان اور تہذیب کا مرکز ہے۔ یہاں کی ہر گلی ہر عمارت اور ہر کوچہ تاریخ کی گواہی دیتا ہے۔ اگر کوئی ادیب یا شاعر دلی کا سفر کرتا ہے تو وہ نہ صرف ایک جغرافیائی سفر ہوتا ہے، بلکہ ایک فکری اور جذباتی سفر بھی ہوتا ہے۔ جہاں غالب کی حویلی، دلی دروازہ، جامع مسجد اور پرانی دلی کی تنگ گلیاں ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتی ہیں۔
خلیل الرحمٰن کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ہندوستان کے سپریم کورٹ کے سنئیر وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ نے ان کوخوب علمی صلاحیت دی ہے۔کسی بھی موضوع پر گفتگو ہووہ مع دلیل اپنی بات رکھتے اور اپنی خوبصورت گفتگو سے لوگوں کا دل جیت لیتے ہیں۔خلیل الرحمٰن کو ہم الفاظ کا معمار کہہ سکتے ہیں جو جذبات اور خیالات کو موئثر اور تخلیقی انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ ان کی گفتگو میں معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے جو سچائی اور حقیقتوں کو بیان کرتی ہے۔ وہ بیک وقت فلسفی اور مفکر کے رول میں بھی اپنی باتیں پیش کرتے ہیں۔ جو زندگی کے پیچیدہ سوالات پر غور کرنے اور اپنے خیالات کے ذریعے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ان تمام باتوں کے علاوہ خلیل الرحمٰن کی گفتگو ایک ایسا جذبہ اور معنی پیدا کرتا ہے جو لوگوں کے دل میں گہرائی تک اتر جاتا ہے۔
ایک ادیب کی مہمان نوازی عام مہمان نوازی سے مختلف اور کہیں زیادہ دلچسپ ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ صرف کھانے پینے یا آرام کی سہولت دینے تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اس میں ایک فکری اور تخلیقی تجربہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔خلیل الرحمٰن کے گھر میں مہمان نوازی صرف چائے اور کھانے تک محدود نہیں تھی، بلکہ الفاظ کی خوشبو، پرانی کتابوں کی خوشگوار مہک اور گفتگو میں ایسا اثر جو مہمانوں کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ایک عام میزبان مہمان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے، مگر ایک ادیب اپنے مہمان کو ذہنی مسرت بھی فراہم کرتا ہے۔ خلیل الرحمٰن کی مہمان نوازی دراصل ذہنی ضیافت تھی، جہاں روایتی خاطر مدارت کے ساتھ ساتھ ذہنی وسعت، تخلیقی خوشبو اور یادگار لمحے بھی ساتھ ساتھ تھے۔
خلیل الرحمٰن سے میری پہلی ملاقات پچھلے سال لندن میں ہوئی۔ دراصل ان دنوں جواہر لال نہرو یونیورسیٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اخلاق آہن لندن تشریف لائے ہو ئے تھے اور وہ مجھ سے ملنے آنے والے تھے تو خلیل الرحمٰن نے بھی مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس طرح ہماری ملاقات کا سلسہ خلیل الرحمٰن سے بھی ہونے لگااور لندن کی ملاقات نے خلیل الرحمٰن سے میرا رشتہ مزید پختہ کر دیا۔جب ہم نے ہندوستان کے سفر کا ارادہ کیا اور دلی کی تقریبات میں شرکت کی حامی بھری تو تو خلیل الرحمٰن کی دلی بھی دیکھنے کا ارادہ کر لیا۔
19جنوری کی صبح دلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ہمارا جہاز، اتحاد ائیر ویز لندن سے چل کر ابوظہبی ہوتے ہوئے دلی پہنچا۔ائیر پورٹ کے باہر تن تنہاصبح کی ہلکی پھلکی دھوپ سے محظوظ ہورہا تھا۔ ائیر پورٹ کے باہر لوگ اپنے رشتہ دار اور دوستوں کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ لیکن میں جب ائیر پورٹ سے باہر نکلا تو نہ میرا کوئی دوست وہاں موجود تھا اور نہ کوئی رشتہ دارمیری راہ دیکھ رہا تھا۔جن صاحب نے مجھے ائیر پورٹ پر ملنے کا وعدہ کیا تھا، وہ بھی کسی کام کی مصروفیت کا بہانہ بنا کر رفو چکر ہو گئے۔ خیر میرے مرحوم دوست شاہد کا چھوٹا بھائی زاہد جو ان دنوں دلی ہائی کورٹ میں وکالت کر رہے ہیں، انہوں نے بھائی جان کہہ کر ائیر پورٹ آنے کی حامی بھرلی۔ تاہم خلیل الرحمٰن صاحب نے بھی ائیر پورٹ آنے کی پیش کش کی جسے میں نے زاہد کی آمد کی وجہ سے انہیں زحمت کرنے سے منع کیا۔
ہمارے نصیب کا مت پوچھیئے،ائیر پورٹ کے باہر بے یارو مددگار آدھے گھنٹے کھڑا،حسرت بھری نگاہ سے مسافروں اور ان کے ملنے جلنے والوں کو دیکھتا رہا۔ لندن والے فون سے ہندوستان کسی سے رابطہ کرنا نامناسب تھا، اس لیے ہم نے جرات کر کے سامنے بیٹھے ہوئے ایک صاحب سے فون مانگا اور زاہد کو فون لگایا۔ زاہد نے فون پر اپنی بے بسی کا اظہار کیا اور کہا کہ بھائی جان ہم دو منٹ میں پہنچ رہے ہیں۔ ویسے بھی ہندوستان کا دو منٹ کسی گھنٹے سے کم نہیں ہوتا۔خیر ادھر اُدھر لوگوں کو تکتا رہا اور اپنی حالت پر ترس کھاتا رہا کہ کیوں جب بھی میں ہندوستان جاتا، مجھے ہی ہمیشہ مجھے ریسیو کرنے والے لوگوں کا انتطار کرنا پڑتا ہے۔ اسی کشمکش میں زاہد پہنچ گئے،بغل گیر ہوئے، سامان اٹھایا بلکہ یوں کہہ لے کہ سوٹ کیس میں لگی پہیوں کی مدد سے سامان کو دھکیلتے ہوئے ہم گاڑی تک پہنچے اور گاڑی میں سوار ہو کر جامیہ ملیہ اسلامیہ یونیورسیٹی کے نہرو گیسٹ ہاؤس پہنچ گئے۔
تھوڑی دیر میں خلیل الرحمٰن کا فون آیا اور انہوں نے خیریت سے پہنچنے پر سانس لی اور گھر آنے کا حکم صادر کر دیا۔ہم بھی خلیل الرحمٰن سے ملنے کو بے چین تھے۔ جلدی سے تیار ہوئے اور زاہد کے ہمراہ خلیل الرحمٰن کے گھر پہنچ گئے۔ خلیل صاحب نے پر جوش لہجے کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور سیدھے کھانے کی میز پر بیٹھ کر ہم نے لذیز پکوان کا خوب لطف اٹھایا۔خوب باتیں ہوئیں اور الفاظ کی گلیوں میں ٹہلتے ہوئے کبھی یادوں کی کٹیا میں جا پہنچے اور کبھی کسی خزاں رسیدہ درخت کے نیچے بیٹھے سرگوشیاں کرنے لگے۔
یوں تو دلی کا سفر ہمارا چار روز کا تھا لیکن خلیل الرحمٰن کی مہمان نوازی اور محبتوں نے کافی متاثر کیا۔ خلیل الرحمٰن نے روایتی مشرقی اقدار کے تحت مہمان نوازی میں ہمارا بڑا خیال رکھا۔ ان کی مہمان نوازی تو منفرد تھی ہی تو وہیں ان کی گفتگو میں ادب کی خوشبو اور خیالات میں وسعت بھی تھی۔ خلیل صاحب نے صرف میرا ہی نہیں بلکہ کلکتے سے تشریف لائے ہوئے مہمان معروف ادیب و شاعر پرویز اختر، ان کی بیگم زیبا، محمد اظہار کریم، ایڈوکیٹ مسرت صبا اور محمد آفتاب صدیقی کا بھی خوب خیال رکھا۔ناشتے سے لے کر لنچ اور عشائیہ اور لذیز پکوان اپنے نئے رنگ روپ میں ہر وقت خلیل الرحمٰن کی دسترخوان پر موجود رہتے۔ایک روز خلیل الرحمٰن نے شب دیگ کا انتظام کیا اور ہم سب نے خوب مزے لے لے کر کھایا۔
یوں تو سفر ہمیشہ کچھ نہ کچھ سکھا کر جاتا ہے، لیکن کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جو زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسے کہ وقت گزرنے کے باوجود ان کی یادیں دل میں بسی رہتی ہیں۔ ان کی خوشبو ذہن میں تازہ رہتی ہے اور وہ ہمیں بار بار اپنی طرف کھینچتے ہیں۔خلیل الرحمٰن کی دلی کا سفر محض ایک جگہ دیکھنے کا نام نہیں تھا، یہ دراصل اپنے اندر ایک نئی دنیا دریافت کرنے کا سفر تھا۔ خلیل الرحمٰن کے ساتھ لمحے، گفتگو، پکوان، سب کچھ اب میری یادوں میں نقش ہوچکا ہے۔ جیسے کسی پرانے افسانے کا حصہ بن گیا ہو۔خلیل الرحمٰن کی دلی کا سفر وہ تھا جو ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا، جیسے کوئی پرانی دھن، جیسے کسی کھوئے ہوئے خواب کی گونج، جیسے ایک ایسی کہانی جو بار بار پڑھی جائے اور ہر بار نئی لگے۔