تہوارپر چڑھا نفرت کا رنگ
- تحریر فہیم اختر
- اتوار 16 / مارچ / 2025
بچپن سے اب تک جب کسی بھی مذہب کا تہوار ہوتا تو مارے خوشی کے ہم دیوانے ہوجاتے اور لوگوں کو مبارک باد دیتے۔ اس کے علاوہ ہم ان کے گھر جاتے، خوب بات چیت کرتے اور ان کے پیش کردہ پکوان سے لطف اندوز ہوتے۔پھر تحفے بھی لئے اور دئیے جاتے اور خوشی خوشی گلے مل کر نیک تمناؤں کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔
اس طرح ہمیں دیگر مذاہب کے تہواروں کا علم ہوتا اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے بیچ ہم آہنگی بھی پروان چڑھتی۔ جس سے اس بات کا ہمیں کبھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم تہوار کسی مذہبی نقطہ نگاہ سے منا رہے یا دیگر مذاہب کے تہواروں میں ہمیں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ تہوار کسی بھی قوم یا معاشرے کی ثقافتی، مذہبی اور روایتی اقدار کا مظہر ہوتے ہیں۔ یہ خوشی، یکجہتی، محبت اور شکر گزاری کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ اپنے مخصوص تہوار مناتے ہیں،مثلاً مذہبی تہوار کسی خاص مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور عقیدت و احترام کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ جیسے عیدالفطر، مسلمانوں کا تہوار، رمضان کے بعد خوشی و شکرانے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عیدالاضحی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اسی طرح کرسمس، ہولی، درگا پوجا اور دیوالی وغیرہ بھی ایسے تہوار ہیں جنہیں دیگر مذاہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدے کے طور پر مناتے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں لوگ تہوار اپنے ثقافتی اور روایتی طور پر کسی علاقے یا قوم کی ثقافت اور روایات کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً جاپانی ثقافت کا تہوار جنریشن فیسٹیول، چین کا قمری نیا سال، اسپین میں منایا جانے والا ٹومٹینا فیسٹیول وغیرہ۔
میں سمجھتا ہوں کہ تہوار ہمارے لیے کافی اہم ہیں۔تہواروں سے خوشی اور یکجہتی فروغ پاتی ہے۔ تہوار لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں اور محبت و خوشی کو فروغ دیتے ہیں۔ اس سے ثقافت اور ورثے کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ یہ کسی قوم یا مذہب کی روایات کو زندہ رکھتے ہیں۔تہواروں سے معاشی فوائد بھی ہوتا ہے، اس دوران تجارتی سرگرمیاں بڑھتی ہیں، جس سے معیشت کو فائدہ ہوتا ہے۔تہوار سے روحانی اور اخلاقی پہلو بھی بڑھتا ہے۔ مذہبی تہوار خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور نیکی کی ترغیب دیتے ہیں۔
یوں تو ہولی اور رمضان پہلے بھی ایک ساتھ منائے گئے ہیں لیکن اس بار ہولی اور رمضان کے قریب آتے ہی ہندوستان میں ایک عجیب و غریب ماحول پیدا ہوگیا۔ جس کی وجہ ایک پولیس آفیسر کا عجیب غیر ضروری بیان تھا۔ پھر کیا تھا دونوں مذاہب کے لوگوں نے ہولی اور جمعہ کی اہمیت کو بتاتے ہوئے سوشل میڈیا پر آمنے سامنے آگئے۔ تو وہیں ایک طبقہ قومی آہنگی کو مد نطر رکھتے ہوئے ماحول میں تناؤ میں تخفیف کرنے کے لیے اپنے اپنے پیغامات کو پوسٹ کرکے بھائی چارگی کا پیغام دیا۔تاہم یوپی کے حکمراں جماعت کے نیتاؤں کی زہر افشانی نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ یعنی معاملہ کو بہتر بنانے کی بجائے مسلمانوں سے کہا گیا کہ ایک جمعہ نماز نہ پڑھیں تاکہ ہولی منائی جاسکے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اس بیان سے کون خفا نہیں ہوگا۔ یعنی اس بیان سے یہ مطلب نکالا جائے کہ اب مسلمان حکومت کے اشارے پر مسجد جائیں گے اور اپنے مذہبی حق سے محروم رہیں گے۔
یہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلوان پولیس آفیسر کو کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کو کہے کہ مسلمان جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد نہ جائیں۔ بھائی ایک پولیس آفیسر کی ڈیوٹی، لااینڈ آرڈر کو قائم رکھنا ہے نہ کہ ایک فرقے کو اپنے غیر ضروری بیان سے اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔خیر پہلوان پولیس والے صاحب نے اپنے آقاؤں کے حکم پر اوٹ پٹانگ بات تو کر دی لیکن مجھے یقین ہے کہ پہلوان پولیس والے کو اپنے بیان پر بڑا پچھتاوا ہورہا ہوگا یا حضرت اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں گے کہ اب انہیں حکمراں پارٹی نیتا ضرور بنا دے گی۔ہندوستان ایک کثیر المذاہب ملک ہے، جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار بستے ہیں۔ جیسے ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ، بودھ اور جین مت وغیرہ کے ماننے والے۔ہندوستانی آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کا حق فراہم کرتا ہے۔ ہندوستان کا آئین مذہبی آزادی کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔
ہندوستانی آئین کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب پر آزادانہ عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور اپنی عبادات ادا کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ تاہم عملی طورپر سیاستدانوں کا کردار اس آزادی کو متاثر کر سکتا ہے۔ آرٹیکل 25، ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور اس پر آزادی سے چلنے کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ یہ عوامی نظم و ضبط اور اخلاقیات کے خلاف نہ ہو۔آرٹیکل 26کہتا ہے کہ تمام مذاہب کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کی آزادی حاصل ہے۔آرٹیکل 27کے مطابق کسی بھی شخص کو کسی خاص مذہب کی ترویج کے لیے ٹیکس دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ آرٹیکل 28 کہتا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں کسی خاص مذہب کی تبلیغ نہیں کی جاسکتی، لیکن مذہبی ادارے اپنی تعلیمات جاری رکھ سکتے ہیں۔
اب اگر ہندوستانی آئین کے ان آرٹیکل کے تحت یوپی پولیس آفیسر کی بات اور حکمراں جماعت کے بیانات کو دیکھا جائے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ یوپی میں ہولی اور رمضان المبارک کے دوران سیاستدان اپنی دکان چمکانے کے لیے ایسے زہریلے بیانات جاری کر رہے تھے تا کہ ہندو اور مسلمان میں آپسی بھائی چارہ ریزہ ریزہ ہوجائے۔ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ یوپی کی حکومت ہندوؤں سے اپیل کرتی کہ جمعہ کے دوران ہندو،دو گھنٹے کے لیے ہولی نہ کھیلیں۔ کیونکہ مسلمان کے لیے جمعہ مقررہ وقت پر ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو میرا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کا عظیم قومی یکجہتی کا پیغام پوری دنیا کو جاتا اور آج ہندو اور مسلمان میں کوئی تناؤ نہ ہوتا۔لیکن نہایت افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ مسلمانوں کو اپنی مسجدوں کو کپڑوں سے ڈھاپنا پڑا تاکہ شر پسند اس پر اپنی رنگوں کی نفرتوں سے ناپاک نہ کر دیں۔
ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ لیکن بعض اوقات مذہبی سیاستدانوں کی سیاسی مفاد اور شر انگیزی سے مذہبی تنازعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے۔ جہاں مذہبی آزادی کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ تاہم سیاست اور مذہب کا تعلق ہمیشہ سے ایک پیچیدہ موضوع رہا ہے۔سیاستدان اکثر مذہب کا استعمال عوام کی حمایت حاصل کرنے، انتخابی فائدہ اٹھانے یا مخصوص طبقے کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں جو بعض اوقات مذہبی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے۔
ہندوستان مذہبی آزادی کے اصولوں پر مبنی ایک سیکولر ملک ہے، جہاں تمام مذاہب کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ تاہم عملی طور پر کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں جن پر حکومت اور عوام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بین المذاہب ہم آہنگی کومزید فروغ دیا جا سکے۔تہوار چاہے مذہبی ہوں، قومی یا ثقافتی، ان کا بنیادی مقصد خوشی بانٹنا، یکجہتی پیدا کرنا اور زندگی کے خاص لمحات کو یادگار بنانا ہے۔