مکافاتِ عمل اور ہماری زندگی

مکافاتِ عمل ایک اٹل حقیقت ہے جو ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ اصول ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے چاہے اچھا ہو یا برا، ہمیں ضرور ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانا لوگ ہمیشہ کہتے ہیں کہ انسان جو باتا ہے وہی کاٹتا ہے۔

بچپن میں اکثر بڑی بوڑھیاں جب اپنے رشتہ داروں یا پڑوسیوں سے عاجز اوربیزار ہوتیں یا کسی سے ناراض ہوتیں توغصے میں اس شخص کو کہتی کہ،"اللہ نے چاہا تو تیرا حشر بہت براہوگا،یا جیسا تونے میرے ساتھ کیا اللہ بھی تجھے ویسا ہی کرے گا، یااللہ تجھے غارت کرے گا"،وغیرہ وغیرہ۔تاہم، ہم مارے خوف کے ان باتوں کو سن کر افسوس کرتے کہ آخر بڑی بی کو ایسا کہنے کی کیا ضرورت تھی۔لیکن اُن دنوں بیچارے مجبور لوگوں کا کوئی سننے والا کون ہوتا تھا۔ یہ بیچارے لوگ ظلم سہتے اور اپنے آنسو بہا بہاکر گھٹ گھٹ کر جیتے رہتے۔معاشرے میں بدنامی کی وجہ سے نہ وہ تھانے جا کر رپورٹ لکھوا تے اور نہ ان کو کوئی انصاف دلانا والا ہوتا تھا۔ ایسی صورت میں وہ بس چلّا چلّا کر اپنی زندگی میں ہوئے زیا دتیوں پر آنسو بہاتے اور بددعا دیتے اور اللہ سے انصاف کی امید لگائے ایسی باتوں کو کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے۔

کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ مکافاتِ عمل کیا ہے؟ مکافاتِ عمل کا مطلب عمل کا بدلہ، وہ عمل جو ہم کرتے ہیں اور بدلہ جو ہمیں ملتا ہے۔اس دنیا میں انسان جو کچھ کرتا ہے اس کا بدلہ ضرور اسے ملتا ہے۔چاہے وہ اچھا ہو یا برا ہو۔ جس طرح اچھائی کی جزا ملتی ہے اسی طرح برائی کی سزا بھی ملتی ہے۔لیکن آج ہم اپنے نفس کے غلام ہو چکے ہیں اور صرف اپنے مفاد کے لیے ہی ہر کام کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں کچھ بھی کرنے سے پہلے ایک بار مکافاتِ عمل کے بارے میں ضرور سوچ لینا چاہئیے۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ اللہ ہمارے دلوں کے حال کو جانتا ہے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد  نظر ڈالیں تو بے شمار ایسے کام اور باتیں ہم کر جاتے ہیں جس سے یا تو ہم واقف یا نا واقف ہوتے ہیں۔کبھی کبھی ہم دوستوں کی صحبت یا اپنی عادت کی بنا پر ایسی حرکتوں کو زندگی میں لطف لینے کا سامان بنا لیتے ہیں۔مثلاً کسی کا خوامخواہ دل دکھانا یا اپنی دولت پر فخر کرتے ہوئے اس کا بے جا استعمال کرنایا اپنی طاقت کا استعمال کرکے ظلم کرنا یا اپنی پوزیشن پر ناز کرتے ہوئے بے ایمانی کرنا یا لالچ میں آکر رشوت لینا یا کسی کی سادگی یا ایمانداری کا مذاق اڑانا وغیرہ ایسی باتیں ہیں جس سے ہم اور آپ اپنے معاشرے میں آئے دن دوچار ہوتے رہتے ہیں۔

رمضان کے اس مبارک مہینے میں جہاں ہم سب اجتماعی طور پر عبادت کر کے اپنی گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں تو وہیں اپنے روزے اور نماز کی ادائیگی سے اللہ سے امیدبھی رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم انسانوں نے جس قدر مظلوموں پر ظلم، غریبوں پر تنگی، لوگوں کو گمراہ کرنا، زمینوں کو ہڑپ کرنا، کاروبار میں بدنیتی، جھوٹی شہرت، حق اور باطل پر خاموش، ہر چیز درست، ناجائز کو جائز ماننا، حرام اور حلال میں کوئی فرق نہیں، مکاری، جلن، حسداور ایسی کئی باتیں جو ہمارے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے روز ہورہی ہیں اور ہم ایک تماشائی کی طرح بے حس بنے ہوئے ہیں۔ جس سے ہماری پریشانیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔اور یہ تمام پریشانیاں اور مایوسی ہمیں کسی نہ کسی معاملے میں الجھائے رکھتی ہیں جس سے ہم غافل ہوتے ہیں۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ ہماری کرتوتوں سے ہمیں اس عذاب میں ڈال کر ہمارا امتحان لے رہا ہے۔

تاریخ میں کئی ظالم حکمرانوں کی مثالیں موجود ہیں جو لوگوں پر ظلم کرتے رہے، مگر وقت کے ساتھ وہی ظلم ان کی زندگیوں میں تباہی لے آیا۔ فرعون کی مثال لیجیے، جو کمزوروں پر ظلم کرتا رہا، لیکن بالاآخر وہ خود دریائے نیل میں غرق ہوگیا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بے لوث ہو کر دوسروں کی مدد کرتا ہے تو ایک نہ ایک دن وہ خود کسی مشکل میں پڑنے پر غیر متوقع مدد پاتا ہے۔بہت سے لوگ ایسے واقعات بیان کرتے ہیں جہاں انہوں نے کسی اجنبی کی مدد کی اور بعد میں کسی اور نے بالکل ویسی ہی صورت حال میں ان کی مدد کی۔

ایک مشہور حکایت ہے کہ ایک بار ایک غریب مسافر سخت سردی میں ایک درخت کے نیچے بیٹھا کانپ رہا تھا۔ قریب ہی ایک رئیس کا شاندار محل تھا۔ مسافر نے رئیس کے دروازے پر جا کر دستک دی اور التجا کی کہ اسے رات گزارنے کے لیے کوئی جگہ دے دی جائے، مگر رئیس نے سختی سے انکار کر دیا اور خادموں کو حکم دیا کہ اسے باہر نکال دیں۔بیچارہ مسافر ٹھٹھرتے ہوئے وہ رات کسی نہ کسی طرح کاٹ کر اگلے دن آگے نکل گیا۔چند سال بعد، حالات بدلے۔ وہی غریب مسافر محنت اور قسمت کے بل بوتے پر ایک کامیاب تاجر بن گیا۔ دوسری طرف وہ رئیس بد انتظامی اور غرور کی وجہ سے دیوالیہ ہوگیا۔ ایک دن ایسا آیا کہ وہ رئیس خود محتاج ہو کر اسی تاجر کے دروازے پر مدد مانگنے پہنچا۔ جب تاجر نے اسے دیکھا تو مسکرا کر کہا: میں وہی مسافر ہوں جسے آپ نے ایک رات پناہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ آج قدرت نے ہمیں ایک دوسرے کی جگہ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ مثال ہمیں سکھاتی ہے کہ کسی کو کمتر سمجھ کر رد نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ جو اچھائی کرے گا، اسے بھلائی ملے گی اور جو برائی کرے گا۔اسے ویسا ہی انجام دیکھنا پڑے گا۔

زندگی میں ہمیں ایسے کئی مواقع ملتے ہیں جہاں ہم اپنی مرضی کے مطابق اچھے یا برے فیصلے کرتے ہیں۔ اگر ہم دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں اور نیکی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو اس کا صلہ ہمیں کسی نہ کسی صورت میں ضرور ملتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم کسی کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں، دھوکہ دہی سے کام لیتے ہیں یا کسی کا حق مارتے ہیں تو وقت کے ساتھ ہمیں بھی ویسا ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ اصول صرف مذہبی تعلیمات تک محدود نہیں بلکہ سائنسی اور نفسیاتی طور پر بھی درست ثابت ہوتا ہے۔انسان جو توانائی، احساسات اور اعمال دنیا میں بھیجتا ہے، وہی کسی نہ کسی صورت میں اس کے پاس واپس آتا ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھی مکافاتِ عمل فوراً ظاہر نہیں ہوتا لیکن وقت کے ساتھ قدرت اپنا حساب چکا دیتی ہے۔

ہماری زندگی میں کئی مثالیں ایسی ملتی ہیں جہاں لوگ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور وقتی طور پر خوشحال نظر آتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ان کی زندگی کچھ لوگ بے لوث خدمت کرتے ہیں اور ان کی نیکی کا بدلہ انہیں غیر متوقع طریقے سے ملتا ہے۔لہذاٰ، ہمیں ہمیشہ اپنے اعمال پر غور کرنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ ہم دنیا میں کیا بیج بو رہے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں سکون، خوشی اور کامیابی ہو تو ہمیں اچھائی کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔ مکافاتِ عمل کا اصول ہمیں سکھاتا ہے کہ انصاف قدرت کا اٹل نظام ہے جو کبھی نہ کبھی ضرور عمل میں آتا ہے۔

مکافاتِ عمل ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ اچھے اعمال کرنے چاہئیں اور برے کاموں سے بچنا چاہیے، کیونکہ جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں ہمارے پاس ضرور واپس آتا ہے۔ قدرت کا انصاف اٹل ہے اور وقت کے ساتھ ہر شخص کو اپنے اعمال کا نتیجہ ضرور ملتا ہے۔