ریاست مخالف پروپیگنڈے میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی ہوگی: وزیر اعلیٰ بلوچستان
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں ریاست مخالف پروپیگنڈے اور سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں پاکستانی پرچم لہرانے اور قومی ترانہ پڑھنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور ریاست مخالف عناصر کو فورتھ شیڈول میں شامل کرکے ان کی منفی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت انتظامی افسران کا اعلیٰ سطحی اجلاس پیر کو کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں چیف سیکرٹری بلوچستان، آئی جی پولیس ،محکمہ داخلہ، ایس اینڈ جی اے ڈی، محکمہ تعلیم، محکمہ صحت، محکمہ خزانہ کے سیکرٹریز نے شرکت کی۔
اس کے علاوہ بلوچستان کے تمام ڈویژن کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، ڈی آئی جیز اور ضلعی پولیس افسران نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کو بلوچستان میں امن و امان سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ریاست مخالف پروپیگنڈے اور سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’بلوچستان کے ہر تعلیمی ادارے میں قومی ترانہ پڑھا جائے گا اور پاکستان کا قومی جھنڈا لہرایا جائے گا۔‘ جن تعلیمی اداروں کے سربراہان ان احکامات کی پابندی نہیں کروا سکتے، اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ریاست کے خلاف بیانیے میں ملوث سرکاری افسران اور ملازمین کے خلاف بھی کارروائی کرنے کا عندیہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی افسر حکومت کی پالیسی پر عمل درآمد نہیں کر سکتا تو رضا کارانہ طور پر عہدے سے الگ ہوجائے۔‘ پالیسی حکومت دیتی ہے عمل درآمد فیلڈ افسران کی ذمہ داری ہے۔ انفرادی ذاتی سوچ ریاست کی پالیسی سے بالا تر نہیں۔ ہر ضلعی افسر اپنے علاقے میں ریاستی رٹ قائم کرنے کا ذمہ دار ہے۔
دوسری جانب کراچی پریس کلب پر بلوچ یکجہتی کمیٹی ( بی وائی سی ) کے احتجاج کے اعلان کے بعد کلب کے اطراف کی سڑکیں بند کردی گئیں۔ شہر میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے جبکہ پریس کلب پر بی وائی سی کے خلاف بھی مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے کلیدی رہنماؤں کی ’غیر قانونی حراست‘ کے خلاف کراچی پریس کلب پر احتجاج کا اعلان کیا تھا، جن میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں جنہیں ہفتے کے روز 16 دیگر کارکنوں کے ساتھ کوئٹہ میں ان کے احتجاجی کیمپ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اس سے ایک دن قبل بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس کے ایکشن کی وجہ سے تین مظاہرین ہلاک ہو گئے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حامی احتجاج کے لیے کراچی پریس کلب پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے تو انہیں فوارہ چوک پر پولیس نے روک لیا، جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کی مزاحمت کی۔ پولیس نے سمی دین بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حامیوں کو حراست میں لے لیا ہے۔