تشکیل وتجسیم = افتخار نسیم

غزل کو نیم وحشی صنف سخن قرار دینا صریح ناانصافی اور اسے اردو شاعری کی آبرو کہنا محض اندھی عقیدت ہے ۔ غزل تو وہ صنف سخن ہے جو بے زبانوں کو بھی زبان عطا کرتی ہے ۔ بلاشبہ ایک عرصہ تک محبوب کی زلف و کمر اس کا محور رہے ہیں لیکن اس میں زیادہ قصور ان اردو شعراء کی معصومیت کا ہے جو اپنے سیاسی ‘ سماجی ‘ تہذیبی حتی کہ لسانی سروکار سے بھی یکسر نابلد رہے ہیں ۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ آج بھی ایسے معصومین کی تعداد کم نہیں ہے ۔ معصومین کا یہی لشکر غزل کی سمت و رفتار کے تعین کی راہ میں حقیقی روڑا ہے ۔

جب بھی کوئی فنکار اپنے سیاسی ، سماجی ، تہذیبی و لسانی شعور کی روشنی میں غزل کا دامن تھامتا ہے تو گویا اردو غزل کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ثابت ہوتا ہے ۔ یوں غزل بھی اپنے آپ میں ایک جینیئس صنف سخن ہے ۔ یہ ہر دور میں اپنے لئے اظہار کے نئے وسیلے ، انکشاف ذات کے نئے حوالے ،  گفتگو کے نئے قرینے اور رعنائی خیال کے نئے استعارے خود تلاش کرلیتی ہے ۔ غزل کے وسیلے سے اظہار ذات کے ایسے ہی ایک نئے اور معتبر حوالے کا نام ہے افتخار نسیم  ؂

آنکھوں میں امڈ آئے ہیں اندر کے بھکاری
چہرے یہاں پھیلے ہوئے ہاتھوں کی طرح ہیں

یہ وہی آنسوہیں جو ہمارے شاعر کی آنکھ میں ہر دم رواں رہتے اور جب لہو آتا تب ہی نہیں آتے ۔ کوئی اس کے محض رگوں میں دوڑنے پھرنے کا قائل نہیں تھا بلکہ توقع یہ ہوتی کہ وہ آنکھ سے تو ٹپکے مگر لہوبن کر۔ کبھی یہ آنسورونے کی حقیقت بیان کرتے اور جس کاغذ پر رونے کی یہ حقیقت بیان ہوتی وہ ایک مدت تک نم رہا کرتا ۔ یہی آنسو جب اکیسویں صدی کی اردو غزل کے البیلے شاعر افتخار نسیم کے ہاں پہنچے تو اندر کے بھکاری قرار پائے ۔ یہ اند رکے بھکاری جب آنکھوں میں امڈ آئے تو چہرے کے حوالے سے تمام بدن کی تفسیر بن گئے ۔ افتخار نسیم کے اس خوبصورت شعر میں غزل کی روایت سے سرمو انحراف یا اختلاف کا ہلکا سا شائبہ بھی نہیں ہے ۔ اردو کے کسی جغادری نقاد کی مانند اس شعر کو ’’روایت کی توسیع‘‘ کا حامل اوراس کے خالق کو’’غزل کا مزاج داں‘‘ قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ اگر یہ شعر اپنی پہلی ہی قرأت میں دل کو چھولینے کی طاقت رکھتا ہے تو اس کی وجہ دراصل شعر کے پس منظر میں موجود گہرے تہذیبی، لسانی و سماجی شعور کی کارفرمائی ہے ۔

جواز جعفری کی طرح افتخار نسیم سے میرا پہلا تعارف ان کے ایک شعر ہی کے حوالے سے ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ آنسو ہی کے حوالے سے ہے۔ دو سال قبل جب معراج فیض آبادی امریکہ سے مشاعرہ پڑھ کر لوٹے تو انھوں نے مجھے ایک شعر سنایا کہ ؂ 
میں آنسو دے رہا ہوں تیرے غم کو
یہ پودا روز پانی مانگتا ہے

یہاں آنسو دینا ایک نئے محاورے کی تشکیل ہے تو پودے کا پانی مانگنا معانی کی انوکھی تجسیم ۔ چونکا دینے بلکہ قاری کو تحیر زدہ کرنے کا یہ عمل افتخار نسیم کی غزل کے اشعار میں جابجا پایا جاتا ہے ۔ غزل کی روایت کے دائرے کا اسیر رہ کر بھی اپنی منفرد شعری کائنات کی تشکیل میں نسیم کامیاب ہیں۔ تجربے کی سچائی اور اظہار کی دیانت ان کے اولین شعری امتیازات ہیں ۔ ان کے لئے شاعری اظہار ذات کا وسیلہ ہے ۔ نظم بلاشبہ ان کی پہلی پسند ہے لیکن میرا تجزیہ ہے کہ اظہار ذات کے حوالے سے نسیم غزل میں زیادہ کامیاب ہیں اور غزل ان کی شناخت کا اہم وسیلہ ہے ۔ بات چونکہ چونکانے کی ہورہی تھی لہذا آپ کو مزید چونکانا لازم ہے ملاحظہ کریں ؂
سوچا ہی تھا کہ تو ہے کہیں تیز دھوپ میں
سایہ نکل کے خود مری دیوار سے گیا

کچھ اس قدر تھے پھول زمیں پر کھلے ہوئے
تاروں کو آسمان میں بونا پڑا مجھے

دشمن کو مرتے دیکھ کر لوگوں کے سامنے
دل ہنس رہا تھا،  آنکھ سے رونا پڑا مجھے

ابھرے کچھ ایسے دور سے دھندلے نشان سے
خوشبو زمیں کی آنے لگی بادبان سے

اردو شاعری میں کسی دور ازکار خیال کی تجسیم کو فن کا درجہ حاصل ہے ۔ ہمارے اساتذہ نے اس میدان میں بڑے گل کھلائے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہمارے اساتذہ کے ہاں شعور کی کارفرمائی بھی صاف جھلکتی ہے ۔ افتخار نسیم کے اشعار میں بھی تجسیم کا یہ عمل موجود ہے لیکن نہایت سادگی بلکہ معصومیت کے ساتھ۔ ایسی معصومیت جس پر اول تو تخلیق کار خو د تحیر کا شکار ہوتا ہے ۔ اور اپنے ہمراہ قاری کو بھی تحیر زدہ کردیتا ہے ۔ رہ گزار کا اٹھ کر دیکھنا ، نقش پا کا چلنا ، ہوا کا سر کو پٹخنا،  غرور کا مکالمہ اور وقت سے گفتگو دراصل تجسیم کا حیرت انگیز مظاہرہ ہی تو ہے  ؂
قدموں کے ساتھ ساتھ تھا پتوں کا شور بھی
اٹھ اٹھ کے رہ گزار مجھے دیکھتی رہی

مجھ کو بجھا کے سر کو پٹختی رہی ہوا
بستی میں کس کو پچھلے پہر ڈھونڈتی رہی

نہ ہو کہ گر کے کہیں تو بھی خاک میں مل جائے
مجھے گلے سے لگالے ترا غرور ہوں میں

نقش بن کے ابھرے گا، اشک بن کے بکھرے گا
وہ کبھی تو لوٹے گا ، وقت تم کھڑے رہنا

میرے بدن میں کیسی توانائی تھی نسیم
میں تھک کے سوگیا تو مرا نقش پا چلا

افتخار نسیم ہجرت کے کرب سے گزر چکے ہیں۔ لیکن یہ ہجرت ان کی شاعری کا بنیادی استعارہ بن کر نہیں رہ گئی ۔ ہجرت ان کے نزدیک زندگی کی ایک نہایت مثبت قدر ہے ۔ یہاں ہجرت دراصل ’’سفروسیلۂ ظفر‘‘ کا اعلامیہ ہے ۔ بقول جواز جعفری ’’اس کی ساری زندگی ایک سفر ہے ۔ سفر جو تلاش ، سیاحت، جستجو، ظفر مندی اور تحرک کا استعارہ ہے ۔‘‘
ہجرت نسیم کی زندگی کا جزولائینفک ہے اور وہ اس کو نہایت مثبت طور پر قبول کرچکے ہیں ۔ جب کسی شے کو آپ کسی بیرونی دباؤ سے زیادہ اندرکے مطالبے کے طور پر قبول کرلیتے ہیں تو اس کا منفی پن خود بخود زائل ہوجاتا ہے ؂
سزا ملی ہے ازل سے سفر کی کیسی نسیم
کہ نیند میں بھی مرے پاؤں چلتے رہتے ہیں

خود اس کے پاس مرے واسطے یہی کچھ تھا
چلا گیا جو مرے پاؤں میں سفر دے کر

کسی کی چاپ مسلسل سنائی دیتی ہے
سفر میں کوئی برابر پکارتا ہے مجھے

سفر زندگی کا استعارہ ہے اور شعور سفر زندگی کی معراج۔ نسیمؔ کا سفر بلاشبہ کھلی آنکھ کا سفر ہے ۔ میرے نزدیک عمر کا آبدوز کشتی میں کٹنا اور سفر تمام ہونے پر بھی کچھ نہ دیکھ پانے کی محرومی کا اظہار ایک شاعرانہ تعّلی سے زیادہ نہیں کیونکہ سفر کا یہ شعوری حوالہ بھی اسی شاعر کی بیاض میں موجود ہے کہ ؂
پرانے راستوں پر چلتے چلتے
نئے قدموں کو کھوتا جارہا ہوں

پرانے راستوں پر چلنا مقدر ہے تو نئے راستوں کی تلاش مقدم۔ اور نئے قدموں کا اکرام لازم۔ بلاشبہ اس شعر میں شاعر نئے راستوں کی تلاش کے کسی عزم کا اظہار نہیں کرتا اور نہ ہی پرانے راستوں سے بیزارگی کا اظہار کرتا ہے لیکن نئے قدموں کی حفاظت و صیانت کو لازم تصور کرتا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ افتخار نسیم کا پورا شعری سفر ہی پرانے راستوں پر نئے قدم سے عبارت ہے ۔ غزل کی روایت سے گہری وابستگی کے ساتھ ساتھ اپنے عصر کی کثیف تر حقیقتوں کے آر پار دیکھنے کا عمل نسیم کی غزل کی معراج ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں اپنے معاشرے اور عہد کا عکس نہایت صاف و شفاف ہے ؂
دلیر ہیں کہ ابھی دوستوں میں بیٹھے ہیں
گھروں کو جاتے ہوئے سائے سے بھی ڈرنا ہے

کر گئی بازار سونے اب کے مہنگائی نسیم
قیمتوں کے بوجھ سے ساری دکانیں دب گئیں

شکوہ بے جا تو نہیں دنیا کے اس کمرے میں
کس طرح مختلف افراد کو رکھا جائے

شہر بنتے گئے مگر انساں
آج تک غار سے نہیں نکلا

افتخار نسیم کو قدرت نے ایک ایسے درد سے نوازا ہے جسے محسوس کرنا دنیا کے بس کا روگ نہیں۔ بقول افتخار نسیم:
’’لائف از ناٹ فیئر ‘‘ اس بات کا ادراک جب مجھ پر ہوا تو میں بھونچکا رہ گیا ۔’’ تو کیا اس زندگی کی صلیب کو عمر بھر کےلئے اکیلے ہی اٹھانا ہوگا؟‘‘ ۔ میں نے تو سمجھا تھا کہ یہ ایک اسٹیج ہے جس میں ہر شخص گزرتا ہے ۔ لیکن میں کیوں اسی جگہ پر آکر رک گیا۔ اس لحاظ سے افتخار نسیم اردو شعروادب میں اپنی قبیل کی پہلی کامیاب اور بھرپور نمائندگی کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ نسیم کی غزل کے وہ اشعار جن میں قدرت کی عطا کردہ اس محرومی کا ذکر ہے بلاشبہ اپنے قاری یا سامع کو اپنے درد میں شریک کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں  ؂
سب ایک سے ہوتے ہیں میں سب سے الگ کیوں
یہ راز وہ مجھے پر کبھی کھلنے نہیں دیتا

پیٹ کی بھوک تو قسمت نے مٹا دی لیکن
کتنا ترسا کے دیا ایک نوالا اس نے

یہ کون مجھ کو ادھورا بنا کے چھوڑ گیا
پلٹ کے میرا مصور کبھی نہیں آیا

مکاں ہوں جس میں کوئی بھی مسکین نہیں رہتا
شجر ہوں جس پہ کہ طائر کبھی نہیں آیا

عذاب جان پہ اب اور سہہ نہیں سکتا
میں جس طرح کا ہوں جیسا ہوں کہہ نہیں سکتا

ایک لمحے کی طلب نے کس طرح رسوا کیا
سوچتا ہوں اور ہوتی ہے پشیمانی مجھے

جہاز ران مرے ! میں تو اک جزیرہ ہوں
یہیں رہوں گا ترے ساتھ بہہ نہیں سکتا

موسم گل میں بھی آئے گا جہاں پھول نہ پھل
میری قسمت میں تھا اس شاخ کا طائر ہونا

وصل کے نشے میں اس کا قہر بھی اچھا لگا
بھوک اتنی تھی کہ مجھ کو زہر بھی اچھا لگا

نسیم کا حوصلہ قابل دید و تحسین ہے ۔ ایک ایسا شدید احسا س محرومی جس میں لوگ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر سکتے ہیں ۔ افتخار نسیم نے اظہار کی سطح پر اپنی شخصیت کی تعمیر کی ہے اور اسی میں ان کی عملی زندگی کا عکس میں بھی صاف جھلکتا ہے ۔ اس حوصلے اور اس یقین کی داد دیجئے  ؂
اگایا جس نے ہے بنجر زمیں میں مجھ کو نسیم ؔ
یہ کیا بھید کہ وہ پھول بھی کھلا دے گا

میرا ماحول مرے واسطے اک خول بھی ہے
کیوں نہ میں سب کے مقابل رہوں ڈٹ کر اس میں

عمیق و کثیر جہت فکر نسیم کی شعری شخصیت کو یک گونہ وقار عطا کرتی ہے ۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ معاشرے میں رہتے ہوئے یہ وسعت نظری کوئی عجب بھی نہیں ہے لیکن اس کا شعری اظہار یقیناً دل پذیراور منفرد ہے۔ ایک جانب نسیم کرہ زمین کے مستقبل کے لئے فکر مند نظر آتے ہیں تو دوسری جانب بدلتے ورلڈ آرڈر پر بھی ان کی گہری نظر ہے ۔ اس زمین پر بسنے والوں کے سیاسی و سماجی مسائل بھی انہیں متوجہ کرتے ہیں ۔ اور تہذیبی اقدار کی شکست و ریخت بھی تو فرد اور فرد کے درمیان روابطہ بھی ان کا موضوع ہیں۔ دہشت گردی جیسا سلگتا عالمی مسئلہ بھی ان کے اظہار کی گرفت سے باہر نہیں رہ پاتا  ؂
ہزار صدیوں کی روندی ہوئی زمیں ہے نسیم
نہیں ہوں میں کہ جسے پہلا پاؤں دھرنا ہے

پناہ دیتا نہیں کوئی اور سیارہ
بھٹک رہا ہوں خلاء میں زمیں سے دور ہوں میں

داستاں گو اسے انسان کہا کرتے تھے
اس زمیں پر کہیں رہتا تھا قبیلا ایسا

اک نئے دور کی بنیاد کو رکھا جائے
دور ماں باپ سے اولاد کو رکھا جائے

آسماں پر پردہ ابررواں کوئی نہ ہو
اے خدا ایک دن تو اپنے درمیاں کوئی نہ ہو

طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دئیے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں

ہوگیا خالی نگر بلوائیوں کے خوف سے
آنگنوں میں گھومتی پھرتی ہوائیں رہ گئیں

اڑنے لگوں تو گولی کوئی پر نہ چاٹ جائے
چہکوں تو خوف ہے مجھے خاکی لباس کا

یہ طفل حرب ہیں ان کو کہیں اماں نہ ملے
کسی کو باپ نہ پوچھے کسی کو ماں نہ ملے

یہ کہا جاسکتا ہے کہ نسیم اپنے عصر سے تخلیقیت نواز آگہی کا حق ادا کرنے میں پوری طرح کامیاب ہیں ۔ لیکن نسیم کی شناخت غزل کا وہی ٹھہراؤ لئے، مدھم مدھم اور تحیر سے پر لہجہ ہے جو ہر غزل میں چند چمکدار شعراور مہکتے مصرعے عطا کرتا ہے ۔ اپنی بات نسیم کے ان چند پسندیدہ اشعار پر ختم کروں گا جس میں ان کے اپنے لہجے کی کھنک صاف محسوس کی جاسکتی ہے  ؂ 
اب اتنا شعور ہے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا
وہ دن بھی تھے کہ ستاروں سے بات کی میں نے

میں اپنی روح کو گروی کئے ہوئے ہوں نسیم
بدن کو بیچ بھی ڈالوں تو نقد جاں نہ ملے

میرے بدن میں کیسی توانائی تھی نسیم
میں تھک کے سوگیا تو مرا نقش پا چلا

گیان میں نہ ملا اور نہ قید سے چھوٹا
قفس عجیب ہے گوتم کی پسلیوں جیسا

اب وہ محبوب نہیں اپنا مگر دوست تو ہے
اس سے یہ ایک تعلق ہی بہر سو رکھو

میں سب میں رہتے ہوئے کس طرح بھلاؤں تجھے
ہر ایک شخص ملتا ہے مجھ کو تو ہوکر

عذاب یہ ہے کہ تنہا کٹے گی عمر تمام
سفر کے بعد کوئی ہمسفر ملے گا مجھے

میں ناچتا چمکتا رہا نوک خار پر
سورج کی سرخ آنکھ مجھے گھورتی رہی

مٹا جو آنکھ کے شیشے سے اس کا عکس نسیم
رگوں میں پھیل گیا خوں کی آرزوہوکر

رچی ہے میرے بدن میں تما م دن کی تھکن
ابھی تو رات کا لمبا سفر بھی آئے گا

loading...