بیرسٹر حمید بھاشانی خان

  • فاشسٹ اور لنڈے کے لبرل

    پاکستان میں دائیں بازو کے دانشور اپنی دانست میں سیکولر ازم کے خلاف لڑائی جیت چکے ہیں۔ اب ان کا اگلا نشانہ لبرل ازم اور لبرل لوگ ہیں۔ یعنی آزاد خیالی اور آزاد خیال لوگ ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے سے ہمیں اردو ذرائع ابلاغ میں لبرل فاشسٹ، کرائے کے لبرل اور لنڈے کے لبرل جیسے الفاظ کثرت [..]مزید پڑھیں

  • دھرنا، احتجاج اور غنڈہ گردی

    فعالیت اور غنڈہ گردی میں فرق ہے ۔ ان دونوں کے درمیان محض کوئی باریک لکیر نہیں جو نظر نہ آئے  یا جسے نظر انداز کیا جا سکے ۔  یہ دونوں بالکل مختلف چیزیں ہیں، جن میں بہت ہی نمایاں فرق ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایک عرصے سے ان دونوں چیزوں کو ایک ہی سمجھا جا رہا ہے  یا بزور طاقت ان کو ایک [..]مزید پڑھیں

loading...
  • خوشی کی تلاش میں لمبا سفر

    گزشتہ پانچ سو سالوں نے کئی انقلاب دیکھے ہیں۔ ہماری اس زمین کو واحد ماحولیاتی اور تاریخی کرے میں متحد کر دیا گیا ہے ۔ معیشت نے حیرت انگیز ترقی کی ہے ۔ بنی نوع انسان آج اس دولت سے لطف اٹھا رہا ہے جس کا تصور صرف کہانیوں میں ملتا تھا۔ سائنس اور صنعتی ترقی نے انسان کو بے پناہ طاقت اور � [..]مزید پڑھیں

  • دو بھیڑیوں اور ایک بھیڑ کی جمہوریت

    لاہور کے حالیہ ضمنی انتخابات پر سوشل میڈیا میں رد عمل ابھی تک جاری ہے ۔ یہ ردعمل کہیں دلچسپ ہے کہیں پریشان کن۔ مختلف تجزیہ کار ان انتخابات کے نتائج سے اپنی مرضی اور پسند کے نتائج اخذکر رہے ہیں۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات پاکستان میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں � [..]مزید پڑھیں

  • کالی عینک والے ہمدرد لوگ

    ہمارے ہاں مغرب کے بارے میں کئی فکری مغالطے پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک مغالطہ یہ ہے کہ مغرب میں لوگ بہت بے حس ہیں۔ ایک دوسرے سے لا تعلق ہیں۔ بے گانہ ہیں۔ خود غرض ہیں۔ مطلب پرست ہیں۔ دوسروں کا دکھ درد محسوس نہیں کرتے ۔ یہ بہت ہی عام مغالطہ ہے جو بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے ۔  بد قسمت [..]مزید پڑھیں

  • صدیوں کی بھوک اور ہمارا ڈی این اے

    سوشل میڈیا پر ایک تصویر گردش کر رہی ہے ۔ تصویر میں لکڑی کا ایک بنچ ہے ۔ اس بنچ پر دو آدمی اور دو عورتیں ہیں۔ یہ ایک عام سا بنچ ہے جو کینیڈا کے ہر پارک میں دکھائی دیتا ہے ۔  پارکوں کے علاوہ فٹ پاتھ کے کنارے ، کھیل کے میدانوں کے کنارے یا فیکٹریوں ، سکولوں اور دفاتر کے لانز اور پچھو� [..]مزید پڑھیں

  • امن کی آشا اور جنگ کی بھاشا

    کشمیر حکمران طبقات کے لیے مداری کا کبوتر ہے ۔ وہ جب چاہیں اسے پٹاری سے نکال کر تماشا دکھاتے ہیں۔ جب چاہیں واپس پٹاری میں بند کر دیتے ہیں۔ بھارتی لکھاری ارون دھتی رائے کی یہ بات مجھے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے اس بیان پر یاد آئی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بھارت کو تجارتی راہدری نہ� [..]مزید پڑھیں