وجاہت مسعود

  • جنرل جذباتی نہیں ہوتے

    اکتوبر 1958 شروع ہوا تو جنرل ایوب خان فوج کے کمانڈر انچیف تھے۔ اکتوبر ختم ہوتے ہوتے ایوب خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، وزیر اعظم، صدر اور فیلڈ مارشل کی منزلیں مارتے ان رفعتوں کو پہنچ چکے تھے جہاں فوج کی کمان ایک غیر اہم ذمہ داری تھی جسے کسی مطیع اور مودب ماتحت کو سونپا جا سکتا تھا۔ & [..]مزید پڑھیں

  • امریکی انتخاب اور دیسی لوزر کی شکست

    زندگی ایک دلچسپ سیاحت ہے۔ مسافر کب اور کہاں اترے گا؟ کتنا ٹھہرے گا اور کس رنگ میں ٹھہرے گا ؟ کب اور کیسے رخصت ہو گا؟ کچھ بھی طے نہیں۔ توقع اور حادثے کا کھیل ہے۔ علی افتخار جعفری نے لکھا تھا، نیند آتی ہے مگر جاگ رہا ہوں سرخواب / آنکھ لگنی ہے تو یہ عمر گزر جانی ہے۔ اس سفر میں ایک خا� [..]مزید پڑھیں

  • مسولینی اور سلطنت کا بحران

    ایک بوڑھی خاتون جانے کن وقتوں سے انصاف کی امید پر مقدمہ لڑ رہی تھی۔ اس کے خلاف فیصلہ آیا تو اس نے ماؤں جیسے ٹھہراؤ میں رندھی آواز میں صرف یہ کہا: ’ پھر یہ عدالت تو نہ ہوئی…. ‘ منصف کی کرسی پر رستم کیانی بیٹھے تھے۔ جذبے اور خیال کا تعلق سمجھتے تھے۔ لرز کر رہ گئے۔ بزرگ خاتو [..]مزید پڑھیں

loading...
  • تاریخ کا جبر اور جمہوریت کا سفر

    پاکستان میں جمہوریت بیوہ ماں کا سوتیلا بچہ ہے جو ماموں کے گھر میں پرورش پاتا ہے۔ اور گھر بھی ایسا ’جہاں بھونچال بنیاد فصیل و در میں رہتے ہیں‘۔ اہل کراچی کے سیاسی شعور کی زندگی آفریں حرارت سے نچنت ہو کر دو گھڑی کو نیند لیتے ہیں تو کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی خبر پر آنکھ کھلتی ہ� [..]مزید پڑھیں

  • 16 اکتوبر 1951 سے 16 اکتوبر 2020 تک

    اکبر الہ آبادی سے ہم ایسے چھٹ بھیوں کا تعلق تاریخ کے الجھے ہوئے دھاگوں جیسا رہا۔ حسرت موہانی جیسے بطل حریت نومبر 1950 میں اپنی وفات سے کوئی چھ ماہ قبل آخری مرتبہ لاہور آئے تو احمد بشیر سے گفتگو کرتے ہوئے اکبر الہ آبادی کو عجب وارفتہ ڈھنگ میں یاد کیا۔ ’اکبر… آدمی بے پناہ تھے۔ [..]مزید پڑھیں

  • مردہ آدمی کی ہنسی سے خوفزدہ ادیب

    ستمبر 1953 میں حسن عسکری نے ’ساقی‘ میں ایک مختصر سا نوٹ لکھا، ’اردو ادب کی موت‘۔ عسکری صاحب نے محض ایک ادبی تاثر رقم کیا تھا مگر اس پر کراچی سے لاہور تک تتیئے لگ گئے۔ اس ردعمل کی وجہ یہ تھی کہ ادیب ابھی زندہ تھا۔ ادب کی موت کا اعلان ایک پیرائیہ اظہار سے زیادہ کچھ نہیں۔ � [..]مزید پڑھیں

  • اے بے گنہی گواہ رہنا

    اللہ اللہ، دن پھر آٓئے ہیں باغ میں گُل کے۔ غیرمشروط معافی کی رسم سے بات چلی تھی، غداری کے مقدمات تک آ پہنچی ہے۔ انجم رومانی ہمارے عہد میں ہنر کی پختگی، خیال کی استواری اور تہذیب کی پاسداری کا نشان تھے۔ بلاشبہ اہل کمال تھے مگر طبعیت ایسی غنی کہ محفل میں نمایاں ہونے سے باقاعدہ گری [..]مزید پڑھیں

  • فرانکو کا اسپین اور سچائی کا راستہ

    ہم لوگ بھی کیا سادہ ہیں۔ تاریخ کے جس منطقے میں اور زمیں کے جس ٹکڑے پر جینے کا موقع ملتا ہے، ہماری دنیا، ہمارے تاثرات، تصورات اور اقدار کی تصویر اسی ہاتھ بھر کی کھڑکی سے بندھ جاتی ہے۔ خیال کی پرواز کو حاضر و موجود کی کشش سے مفر نہیں۔ ہماری تہذیب نے بھی کیا کیا اہل نظر پیدا کیے۔ م� [..]مزید پڑھیں