وجاہت مسعود

  • منقش مرغ اور اونی بھیڑ کی حکایت

    غریب قلم مزدوروں کی کیا بضاعت ہے۔ سیٹھ صاحب اور ان کے موروثی پرچہ نویسوں کی نگہ نیم باز کے اشارے پر رکھے چراغ ہیں۔ اک پل کی پلک پر دنیا ہے۔ صاحبان محرم راز نے ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا تو روٹیوں کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے فیض صاحب جیل گئے تو مشتاق گورمانی کی بن آئی اور سالک � [..]مزید پڑھیں

  • چگی داڑھی بکری اور جمہوری غزال

    یہ بات ہمیشہ حیران کرتی تھی کہ گھر میں دادا اور ان کی سب اولاد قد کاٹھ ، خدوخال اور رنگ روپ میں ہیٹے تھے لیکن دادی کا قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا تھا اور رنگ میدہ شہابی تھا۔ ایک کم عمر بچہ کیسے جانتا کہ دادی ایک یتیم کشمیرن بچی تھی جو حالات کی نامعلوم موجوں پر بہتی مشرقی پنجاب میں لدھیا� [..]مزید پڑھیں

  • دستِ عطا کی حنا کاری میں نقوشِ خطا

    بہت دن سے تشویش تھی کہ ممتاز قومی سائنس دان، جمہوریت دشمنی کے علمبردار اور ٹیکنوکریٹ بندوبست کے داعی محترم ڈاکٹر عطا الرحمن کا نسخہ اجل مدت سے نظر نواز نہیں ہوا۔ خاکم بدہن، ڈاکٹر عطا الرحمن دیانت دار، غیر سیاسی اور ٹیکنو کریٹ صاحبان علم کے دست اعجاز سے مایوس تو نہیں ہو گئے۔ 12 [..]مزید پڑھیں

loading...
  • جلتے ہوئے جنگل میں فاختہ کا گھونسلا

    8 دسمبر کو خبر آئی کہ شام کا صدر بشار الاسدرات کی تاریکی میں فرار ہو کر اپنے سرپرست ملک روس پہنچ گیا۔ تو کیا شام میں وہ جنگ بالآخر ختم ہو گئی جو 2011 میں شروع ہوئی تھی۔ اس کا جواب نہیں میں ہے۔ اسد گھرانے کی شام میں 1971 سے قائم آمریت اپنے پیچھے پیچیدہ لڑائیوں اور خانہ جنگیوں کا امکان [..]مزید پڑھیں

  • کشتیوں کا پل اور 25 کروڑ مسافر

    یہ 19 ویں صدی کی باتیں ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1843 میں سندھ اور 1849 میں پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ ابھی یہاں بنیادی بندوبست کے معاملات چل رہے تھے کہ 1857 کا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ایک برس بعد 1858 میں برطانوی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کرکے ہندوستان پر براہ راست حکومت شروع کر دی۔  1881 می� [..]مزید پڑھیں

  • جھانسی کی رانی اور جنرل بخت خان

    کوچہ سیاست کے بدلتے رنگ دیکھتے نصف صدی ہونے کو آئی۔ چھتیس برس اخبار کے صفحات پر بدلتے لب و لہجے میں حسن طلب کی باس سے آشنائی ہو چکی۔ ہمیں خبر کے واقعاتی حقائق دیکھنا ہوتے ہیں۔ کسی درجہ دوم کے اہلکارسے ’اندر کی خبر‘ جاننے کی خواہش یا ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہ ’نام نہاد ذرائ [..]مزید پڑھیں

  • خورجی کے خوارج اور گرو کی بانی

    میلان کنڈیرا کا ناول ’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘ ہماری نسل کا نمائندہ ادبی استعارہ ٹھہرا۔ ہماری نسل نے ساٹھ کی دہائی کے خواب آگیں برسوں میں آنکھ کھولی۔ جوانی میں سرد جنگ کے خاتمے اور عالمی جمہوری ابھار سے جذبوں کو مہمیز کیا۔ مذہبی دہشت گردی کا جنم دیکھا اور اب بڑھاپے م� [..]مزید پڑھیں

  • یہ غروب عصر کا وقت ہے

    یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ خالد احمد کی موت وقت کا ظلم ہے، آمریت کا بانجھ پت جھڑ ہے یا ایک پسماندہ معاشرے کی بے ہنگم افراتفری کے پس پردہ دبے پاؤں بڑھتی بے خبری۔ یہ ہماری یاد کی رحم دلی ہے جو ہمیں دکھ کی تیز آنچ کا احساس نہیں ہونے دیتی یا تاریخ کی دانستہ تنسیخ ہے جو شعورِ تن� [..]مزید پڑھیں

  • شرطیہ پرانا پرنٹ اور داغوں کی بہار

    اخبار سے خبر تو اب غائب ہو گئی۔ کالم کے نام پر خامہ فرسائی کے اطوار بھی چراغ حسن حسرت کے لفظوں میں ’کثرت استعمال‘ سے متروک ہو رہے ہیں۔ فکاہیہ کالموں میں ایک عطا الحق قاسمی اگلے وقتوں کی نشانی بچے ہیں۔ رپورٹنگ سے کالم کا رخ کرنے والے خبر کو کالم کا لبادہ پہناتے ہیں مگر صیغہ � [..]مزید پڑھیں

  • موچی کے بالشتیے اور بادشاہ کا لباس فاخرہ

    میرا جی کو گھر یاد آتا تھا اور مجھے ماں یاد آتی ہے۔ میرے بچپن میں جاڑا بہت کڑاکے کا پڑتا تھا۔ ماں نرم روئی کا لحاف مجھ پر ڈال کر سر پر اونی ٹوپی اوڑھا دیتیں۔ اور پھر روئی کے ڈھیر میں چھپے اس ’گولو شاہ‘ کو مزے مزے کی کہانیاں سناتیں۔ میری پسندیدہ کہانی ایک غریب موچی کے بارے م [..]مزید پڑھیں