نصرت جاوید

  • مجوزہ مخلوط حکومت:اس کے بعد کیا ہوگا

    دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے سیاسی منظر نامے کے مشاہدے کے بعد جو خیال ذہن میں آئے اسے وقت سے بہت پہلے بیان کردینے کا عادی ہوں۔یہ سمجھ ہی نہیں پایا کہ ان دنوں مارکیٹنگ کا زمانہ ہے۔ سیاست کی طرح صحافت میں بھی اپنی دکان چمکانے کے لئے ”ٹائمنگ“ کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ویسے بھی & [..]مزید پڑھیں

  • مک مکا کی تیاری

    ہماراآئین تحریری طور پر مرتب ہوا ہے۔ غیر تحریری آئین کے مقابلے میں سیاسیات کے عالم اس نوع کے آئین کو بہتر گردانتے ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ تحریری صورت میں لکھے آئین کی بدولت کسی ریاست کے شہری بآسانی جان لیتے ہیں کہ ان کے حقوق وفرائض کیا ہیں۔ اس سے بھی اہم تر حقیقت یہ ہے کہ تح� [..]مزید پڑھیں

loading...
  • اکثریت ثابت کرنے کے اعتماد سے محروم حکومت

    عمران خان صاحب کے اندازِ سیاست وحکومت کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود میں خلوص دل سے یہ سوچتا ہوں کہ انہیں محلاتی سازشوں کے ذریعے تیار ہوئی تحریک عدم اعتماد کے استعمال سے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے سے گریز اختیار کرنا چاہیے تھا۔ انہیں اگر ہر صورت گھر بھیجنا ہی مقصود تھا ت [..]مزید پڑھیں

  • اکھنڈ بھارت اور اکھنڈ روس

    روس اور اس کے صدر پوٹن کو امریکہ اور مغرب کی نفرت میں ہمارے محبان وطن جس والہانہ انداز میں ان دنوں سراہ رہے ہیں، ان کا مشاہدہ کرتے ہوئے مجھے 1980  کی دہائی مسلسل یاد آ رہی ہے۔ اس دہائی میں خارجہ امور کا بے چین رپورٹر ہوتے ہوئے میں ”افغان جہاد“ کی بابت بہت پریشان رہتا تھا۔ [..]مزید پڑھیں

  • گہری سازشوں کے چرچے اور مہنگائی

    گزشتہ ہفتے کا آخری کالم معمول کے مطابق جمعرات کی صبح اٹھنے کے بعد لکھا تھا۔ مولانا فضل الرحمن صاحب نے اس سے قبل اطلاع یہ دی تھی کہ ’’آئندہ 48گھنٹوں‘‘ میں تحریک عدم اعتماد والا کارتوس چلادیا جائے گا۔ وہ چل گیا تو خزاں بہار میں بدل جائے گی۔ یہ کالم چھپنے کے دن ان کی ج [..]مزید پڑھیں

  • عدم اعتماد: ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم“ والا ماحول

    جمعہ اور ہفتہ کی صبح اٹھ کر میں یہ کالم نہیں لکھتا۔ جمعیت العلمائے اسلام کے رہ نما مولانا فضل الرحمن صاحب نے مگر اعلان کر دیا ہے کہ ”آئندہ 48 گھنٹوں“ میں بالآخر ”تحریک عدم اعتماد“ پیش ہو سکتی ہے۔ مولانا ایک زیرک اور کئی حوالوں سے ذمہ دار سیاستدان ہیں۔ خواہ مخواہ کی � [..]مزید پڑھیں

  • اب انہیں کوئی اور گیم سوچنا ہو گی

    اپنے لکھے کالموں کا ریکارڈ رکھنے اور ان کے حوالے دینے کی مجھے عادت نہیں۔ دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ اخبار کے لئے لکھی تحریر عموماً ڈنگ ٹپاؤ ہوتی ہے۔ اسے رات گئی بات گئی کی صورت ہی لینا چاہیے۔ اس اعتراف کے باوجود یاد آ رہا ہے کہ طویل مدت کے بعد چند روز قبل جب نواز شریف کے نا� [..]مزید پڑھیں

  • جب آئے گا عمران

    ماضی کے بدعنوان اور نااہل حکمرانوں سے لفافے اور ٹوکریاں وصول کرتے ہوئے میرا ضمیر بھی چند صحافی ساتھیوں کے ضمیر کی طرح مردہ ہوچکا تھا۔ مردہ ضمیر چہرے کی رونق بجھادیتا ہے اور عمر کے آخری حصے میں دانت بھی جھڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی باعث جس ٹی وی چینل کے لئے پروگرام کرتا تھا اس ن [..]مزید پڑھیں