عطاالحق قاسمی

  • میری کہانی(17)

    اس دوران میں آدھا ایم اے کر چکا تھا یعنی تنقید کے پرچے میں فیل ہو گیا تھا۔ تنقید ہمیں پروفیسر سجاد باقر رضوی پڑھایا کرتے تھے۔ جنہوں نے انگریزی میں ایم اے کیا ہوا تھا مگر پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ملازمت کی شرط پوری کرنے کیلئے انہیں ایم اے اردو کا امتحان دینا پڑا۔ رزلٹ ا� [..]مزید پڑھیں

  • میری کہانی (16)

    میری کہانی کا ایک اور کردار فصیح الدین خالد بھی ہے جسے ہم کبھی خالدی اور کبھی فسی کہتے تھے۔ یہ بھی اے بلاک میں میرا ہمسایہ تھا۔ اس کے والد ریٹائرڈ کمشنر تھے جو بہت کم ہمارے سامنے آتےتھے۔ خالدی کا کھلتا ہوا سانولا رنگ اس پر بہت کھلتا تھا۔ نہ زیادہ موٹا اور نہ زیادہ اسمارٹ۔ قد � [..]مزید پڑھیں

  • میری کہانی(15)

    ماڈل ٹاؤن میں مسعود علی خان کے ساتھ میرا زیادہ وقت گزرا۔ میں تو امریکہ سے ڈیڑھ دو سال بعد ہی واپس پاکستان لوٹ آیا تھا مگر مسعود بیس سال بعد بھی واپس نہ پاکستان آیا۔ ہمارےدوستوں میں ایس طارق بخاری جسے ہم ’’تالے‘‘ کہتے تھے، ابھی تک امریکہ میں ہے۔ جنید شاہ امریکہ سے [..]مزید پڑھیں

loading...
  • میری کہانی (14)

    جب میں نے اپنی خود نوشت ’’میری کہانی‘‘ اپنے کالم میں قسط وار شائع کرنا شروع کی تو مجھے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ دو چار قسطوں سے زیادہ لکھ سکوں گا۔ اللّٰہ جانے میرے دل میں یہ خیال کیوں اتنا راسخ تھا کہ میرے پاس بتانے کو کچھ نہیں، سو سوچا یہی تھا کہ جو دو چار باتیں یاد آ [..]مزید پڑھیں

  • میری کہانی (13)

    تبسم صاحب کا ابھی تھوڑا سا ذکر باقی ہے ،موصوف انتہائی شریف النفس، وضع دار اور بھولے بھالےتھے ۔ ان کے پندرہ روزہ مشاعروں میں بھی شریک ہوتا اور اپنے کلامِ بلاغت نظام سے سامعین کو محظوظ کرتا، اپنے بعد آنے والے شاعروں کو ان کے کلام پر اتنی ہی داد دیتا جتنی انہوں نے مجھے دی ہوتی تھی [..]مزید پڑھیں

  • میری کہانی (12)

    مہاراجہ رنجیت سنگھ کی نواسی شہزادی بمباوالی جس کا ذکر میں نے اپنے پچھلے کالم میں کیا۔ ماڈل ٹاؤن اے بلاک میں چونکہ میرے گھر کے بہت نزدیک رہتی تھی۔ لہٰذا میرا روزانہ ادھر سے گزر ہوتا تھا یہ کوٹھی اے بلاک کے خصوصی ڈیزائن والے بس اسٹاپ کے بالکل سامنے تھی جس کے ساتھ دلدار کا کھوکھا ت [..]مزید پڑھیں

  • میری کہانی (12)

    ذکر ماڈل ٹاؤن کا ہو تو میں بہت ’’باتونی‘‘ ہو جاتا ہوں۔ ماڈل ٹاؤن کا ذکر مجھے ذکر یار لگتا ہے۔ اس لئے بھی کہ اس میں میرے یاروں کا ذکر ہےزندہ دل، ہنسوڑے اور ’’پنگے‘‘ لینے والے منیر احمد شاہ کا چھوٹا بھائی ایچی سن کالج میں پڑھتا تھا۔ ہم سب اسے ملنےگئے ۔درمیا [..]مزید پڑھیں

  • میری کہانی(11)

    میں ماڈل ٹاؤن کا احوال بیان کرنے کے ضمن میں اپنے قارئین کو بہت ’’لارے‘‘ دے چکا ہوں جونہی اس کا احوال بیان کرنے لگتا ہوں کوئی اور موضوع ذہن میں آ جاتا۔ بہرحال اب ماڈل ٹاؤن چلتے ہیں۔ باغات میں گھرا ہوا یہ علاقہ اس زمانے میں اتنی دور لگتا تھا کہ جب ماڈل ٹاؤن سے باہرجا� [..]مزید پڑھیں

  • میری کہانی(10)

    میرا دوسرا دوست ابراہیم تھا۔ اس نے ایک بار میرے ابا جی کے نام پوسٹ کارڈ بھیجا جس میں اس نے مختلف مٹھائیوں کے نام اور ان کی قیمت اور آخر میں ٹوٹل درج کیا تھا اورآخر میں ابا جی کو کہا گیا تھا کہ آپ کے بیٹے نے یہ مٹھائیاں ادھار لے کر کھائی تھیں اور وعدہ کیا تھا کہ ایک ہفتے میں ادائ [..]مزید پڑھیں

  • میری کہانی(9)

    گزشتہ کالم میں مجھ سے سرزد دو غلطیوں کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ پروفیسر رفیق اختر نے ایم اے او کالج سے مستعفی ہونے کے بعد گوجرہ میں نہیں گوجر خاں میں برتنوں کی دکان کھولی تھی۔ دوسرے یہ کہ چھ ہزار پاکستانی روپوں کے بدلے سو ڈالر نہیں چھ سو ڈالر ملے تھے۔ کیونکہ اس زمانے میں � [..]مزید پڑھیں