یاسر پیرزادہ

  • فلسطینیوں کی مسلح جد و جہد اور غامدی صاحب

    پہلا، منظر : تاریخ ہے 19 اپریل 1943 اور مقام ہے وارسا، پولینڈ۔ جرمن افواج پولینڈ پر قبضہ کرچکی ہیں اور وارسا شہر کے یہودی اپنی بستیوں میں مَحبوس ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ وہ دن تھا جب جرمن فوج اور پولیس یہودی بستی میں اِس نیت سے داخل ہوئی کہ یہودیوں کو وہاں سے نکال باہر کیا جائے گا۔ تاہ� [..]مزید پڑھیں

  • اخلاقیات کا لفظ اب ہماری لغت میں نہیں

    میرا دوست اے ٹی ایم مشین کے باہر انتظار کر رہا تھا کہ کب اندر موجود شخص باہر نکلے اور وہ اے ٹی ایم سے پیسے نکالے، اتنے میں رکشے سے دو طالبات نکلیں۔ ایک مکمل با پردہ اور دوسری ماڈرن۔ یہ دونوں لڑکیاں بھی اے ٹی ایم استعمال کرنے آئی تھیں ۔ جونہی اندر والے صاحب نے دروازہ کھولا، دو ن [..]مزید پڑھیں

  • مس پاکستان حرام، مسٹر پاکستان حلال؟

    کہتے ہیں کہ جب بغداد پر حملہ ہوا تو اُس وقت علمائے کرام یہ بحث کرنے میں مصروف تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں، میں نے اِس لیے لکھا کہ اِس واقعے کی صحت پر مجھے شبہ ہے۔ لیکن اگر اِس واقعے کو ڈینگی بھی ہے تو کام چل جائے گا کیونکہ یہ واقعہ اب ضرب المثل بن چکا [..]مزید پڑھیں

loading...
  • رام چندر اور فاروق حسین کو آزادی مبارک

    جون 1947، نسبت روڈ، لاہور: رام چندر کو کئی راتوں سے نیند نہیں آرہی تھی، ہر لمحے اسے دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں بلوائی اس کے گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل نہ ہو جائیں اور اس کی دو جوان بیٹیوں کو اٹھا کر نہ لے جائیں۔ ذرا سے کھٹکے پر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا اور اپنی چارپائی کے ساتھ رکھا � [..]مزید پڑھیں

  • پریم چند کا پھٹا ہوا جوتا

    پریم چندکو کون نہیں جانتا، شاید وہ نہیں جانتے جواردو نہیں جانتے ۔ پریم چند کو آپ جدید اردو افسانے کا جد امجد کہہ سکتےہیں۔ اُن کا شمار اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے سب سے بڑے مختصر افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ہندی ادب کے ماننے والے اسے ’اپنیاس سمراٹ‘ کہتے [..]مزید پڑھیں

  • ائیر کنڈیشنر کا موجدجنت میں جائے گا؟

    ’دیوسائی سے اگر آپ بھارتی سرحد کی طرف جانا شروع کریں تو راستے میں ایک وادی آتی ہے جس کا نام وادی گُلتری ہے۔ اب تو خیر وہاں تک پہنچنے کے لیے کچی پکی سڑک موجود ہے مگر جس وقت کی بات میں بتا رہاہوں تب یہاں صرف پیدل ہی پہنچا جا سکتا تھا۔ پہلے آپ سکردو سے چِلم تک جاتے تھے جوضلع ا [..]مزید پڑھیں

  • موت کا سفر قبول ہے، پاکستان میں رہنا نہیں

    ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کرکٹ کے مقابلے بھی پوری چکا چوند سے جاری ہیں اور جہاں سے لوگ نقل مکانی کرتے ہوئے اپنی جان بھی گنوا رہے ہیں ۔ ملیے شاہدہ رضا سے، اِن کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تھا، یہ فٹ بال اور ہاکی کی غالباً واحد خاتون کھلاڑی تھیں جنہوں نے بیک وقت دو ک� [..]مزید پڑھیں

  • تعزیتی مضمون لکھنے کا طریقہ

    مجھے وہ وقت یاد ہے جب میں اور ضیا محی الدین کبڈی کھیلا کرتے تھے، ضیا صاحب نے سرخ رنگ کا جانگیہ زیب تن کیا ہوتا اور وہ منہ سے ’کوڈی کوڈی‘ کی آوازیں نکال کر مجھ پر لپکا کرتے۔ ویسے تو وہ ہر شعبے میں ہی کمال دکھانے کی کوشش کرتے تھے مگر اس کھیل میں اکثر مجھ سے مات کھا جاتے تھے ا� [..]مزید پڑھیں

  • پچاس روپے کا سفر

    لاہور سے سوات کے لیے گھر سے نکلے تو اندازہ نہیں تھا کہ یہ سفر شیطان کی آنت ثابت ہو گا۔ اصل میں قصور ہمارا اپنا تھا، موٹر وے لینے کی بجائے ہم نے اپنی پرانی محبت یعنی جی ٹی روڈ کو ترجیح دی۔ اکثر جب ہمیں ناسٹلجیا کا دورہ پڑتا ہے تو ہم جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہیں، اِس مرتبہ بھی کچھ ایسا [..]مزید پڑھیں

  • ہم بورس بیکر کو دیوالیہ نہ ہونے دیتے!

    جس زمانے میں ہم جوان ہو رہے تھے اُسے آپ اسّی کی دہائی کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب پی ٹی وی پر خواتین کا ٹینس میچ بھی ہمارے بزرگوں کو ’سافٹ پورن‘ لگتا تھا ۔ آدھا وقت ہمارا اسکول میں گزرتا اور باقی کا آدھا وقت اسٹیفی گراف اور مارٹینا نورواتی لووا کی اسکرٹ پر فوکس کرنے � [..]مزید پڑھیں