گفتگو

  • ایس ایم ایس

     ایک ایس ایم ایس آیا ہے کبھی پوسٹ کارڈ آیا کرتے تھے   اور اس سے بھی پہلے محلے یا قصبے کا کوئی شخص گھر گھر جاکر بتاتا تھا۔   پھر مساجد میں لاﺅڈ اسپیکر کا زمانہ آگیا۔ بڑی بڑی کوٹھیوں اور عالیشان محلات والی آبادیاں تو ان لاﺅڈ اسپیکروں کی دسترس میں نہ آسکیں کیوں کہ ان کے بی [..]مزید پڑھیں

  • میں کہہ نہیں پاتا

    میں کہنا چاہتا ہوں پوری قوت اور طاقت سے اس آواز کو الفاظ کا جامہ پہنانا چاہتا ہوں جو میری سینے میں مچل رہی ہے۔ میرا مطلب ہے میرے اندر لاوا پک رہاہے۔ میں جذبات اور احساسات سے مغلوب ہوں۔ میرے دل میں جذبات کا ہجوم ہے اور دماغ میں خیالات کا۔ اس ہجوم میں میں خود کو بے بس محسوس کررہا � [..]مزید پڑھیں

  • ”شہادت“

    تم بھوکے ہو کیوں کہ تمہارے ہمسائے کا پیٹ بھر اہوا ہے۔ اس نے تمہارے حصے کا کھانا ہضم کرلیا ہے۔   مگر یہ کیسے ممکن ہے۔ وہ اپنا کام کرتا ہے۔ محنت سے وسائل حاصل کرتا ہے۔ اس کا پیٹ بھرا ہونے سے میں کیوں کر بھوکا ہوسکتا ہوں۔ نہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔   ایسا ہے کہ اسے کوئی حق ن [..]مزید پڑھیں

loading...
  • میں تو الّو ہوں

    چشم حیرت دیکھتی ہے۔ تالیوں کی گونج، توصیفی جملوں، پرستاروں کے ہجوم میں گھرے ایک شخص کو۔ جو بولتا ہے مگر سوچتا نہیں، جو قیادت کرتا ہے مگر قائد نہیں، جو دعدے کرتا ہے مگر بہادر نہیں۔ چشم حیرت وا ہے یہ شخص جو ایک قوم کے سر پر مسلط ہے اور جسے اس بات کا گمان ہے کہ وہ بہادر ہے اور جرات � [..]مزید پڑھیں

  • مکالمہ

    ’’یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔ اور ان غلطیوں کی سزا مجھے بھگتنی پڑے گی۔ تم تو مروگےہی لیکن تمہاری نادانیوں کی وجہ سے میں بھی مارا جاؤں گا‘‘  میرا دوست بدحواس دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے بال کھڑے تھے اور چہرے کی جھریاں مزید گہری ہوگئی تھیں۔ آنکھوں کے گرد حلقے سیاہ اور بھ� [..]مزید پڑھیں

  • خون کا دریا

    محافظوں نے بس کو روکا اور مسافروں کو نیچے اترنے کا حکم دیا۔ مگر کیوں؟ ایک ننھے بچے نے اپنی ماں سے پوچھا۔ ماں نے بچے کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی آنکھیں وحشت سے پھیلی تھیں۔ وہ سب وردیوں میں ملبوس تھے۔ اس ان پڑھ اور نادان خاتون کا دل انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا۔ آخر ایسے سنسان مقا� [..]مزید پڑھیں

  • خون کا دریا

    تحریر: سید مجاہد علی محافظوں نے بس کو روکا اور مسافروں کو نیچے اترنے کا حکم دیا۔ مگر کیوں؟ ایک ننھے بچے نے اپنی ماں سے پوچھا۔ ماں نے بچے کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی آنکھیں وحشت سے پھیلی تھیں۔ وہ سب وردیوں میں ملبوس تھے۔ اس ان پڑھ اور نادان خاتون کا دل انجانے خوف سے دھڑک رہا تھ� [..]مزید پڑھیں

  • بت

    وہ بتوں کو نہیں پوجتے تھے۔ وہ ایک الوہی طاقت کے ماننے والے اور ایک پروردگار پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن وہ پھر بھی اس کو پوجتے تھے۔ اوہ۔۔۔ نہیں میرا مطلب ہے کہ وہ اسے توصیف وتعریف کی اس معراج پر رکھتے تھے جو پرستش سے زیادہ دور نہیں تھی۔ وہ بولتا تھا اور سب سنتے تھے۔ وہ جہاں کھڑا ہو [..]مزید پڑھیں

  • کاروان پابہ رکاب

    ایک لمبی سانس کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور چاروں اطراف ایک نگاہ ڈالی۔ سورج اپنی روایتی چکاچوند سے چہار عالم کو روشن کررہا تھا۔ شبنم کے قطرے ابھی تک گلاب کی تازہ پنکھڑیوں پر باقی تھے۔ چمن میں اب بھی پھولوں کی دھیمی خوشبو موجود تھی۔ فضاء میں نئے دن کے آغاز کا ارتعاش تھا۔ سوئے ہو [..]مزید پڑھیں

  • گرے زون

    ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔ ساری خواہشیں قطار اندر قطار چھم چھم اترتی چلی آتی ہیں۔ رنگ رنگیلی، رسیلی اور دلچسپ۔۔۔ کاش ایسا ہوجائے۔ ایسا ہوجائے کہ یہ جو شخص سامنے بیٹھا ایک ایسا جھوٹ بول رہا ہے جس کا نہ سر ہے نہ پاؤں، میں اس کے سامنے جاؤں اور کہوں۔ صاحب جانے دو۔ اب اتنے زمین آسمان ک [..]مزید پڑھیں